إِنَّ الَّذِينَ تَوَفَّاهُمُ الْمَلَائِكَةُ ظَالِمِي أَنفُسِهِمْ قَالُوا فِيمَ كُنتُمْ ۖ قَالُوا كُنَّا مُسْتَضْعَفِينَ فِي الْأَرْضِ ۚ قَالُوا أَلَمْ تَكُنْ أَرْضُ اللَّهِ وَاسِعَةً فَتُهَاجِرُوا فِيهَا ۚ فَأُولَٰئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
بے شک جن لوگوں کی جانوں (104) کو فرشتوں نے اس حال میں قبض کیا کہ وہ اپنے حق میں ظالم تھے، تو وہ (فرشتے) ان سے پوچھیں گے کہ تم لوگ یہاں کیوں رہ گئے تھے، وہ کہیں گے کہ ہم لوگ اس سرزمین میں کمزور تھے، وہ کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین کشادہ نہیں تھی جہاں ہجرت کر کے چلے جاتے، پس ان کا ٹھکانا جہنم ہوگا، اور وہ بری جگہ ہوگی،
[١٣٤] جنت میں داخلہ کے لئے جہاد شرط نہیں : یہ آیت ایسے مسلمانوں سے متعلق ہے جنہوں نے ہجرت پر قادر ہونے کے باوجود ہجرت نہیں کی اور اپنا گھر بار چھوڑ کر دارالہجرت (مدینہ) جانے میں پس و پیش کرتے رہے۔ اور یہی ان کا اپنی جانوں پر ظلم تھا۔ اور مسلمانوں پر ظلم یہ تھا کہ جنگ کے موقعہ پر انہیں مشرکوں کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور مشرک یہ چال چلتے تھے کہ ایسے مسلمانوں کو اپنی صفوں کے آگے کردیتے تھے کہ وہ ان کے لیے ڈھال اور دفاع کا کام دیں۔ اب یہ مسلمانوں کے لشکر کے لیے بڑی الجھن بن جاتی تھی کہ اگر لڑائی لڑیں، تیر برسائیں، تلوار چلائیں تو ان کے مسلمان بھائی ہی مرتے تھے اور اگر ہاتھ روکے رکھیں تو خود انہیں نقصان پہنچ جاتا تھا۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کے شان نزول کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ’’(مکہ میں) مسلمانوں میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو مشرکوں کا ساتھ دیتے اور مقابلہ کے وقت ان کی جمعیت بڑھاتے پھر (مسلمانوں کی طرف سے) کوئی تیر ان کو بھی لگ جاتا یا کسی کو تلوار لگتی تو وہ زخمی ہوتا یا مر جاتا، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی۔‘‘ (بخاری، کتاب التفسیر) ہجرت نہ کرنے کا نقصان :۔ ایسے مسلمانوں کے لیے اس آیت میں جو وعید آئی ہے اس سے ضمناً یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے کہ ایسا کمزور ایمان اللہ کے ہاں مقبول نہیں۔ لہٰذا اگر مشرکین انہیں ڈھال کے طور پر استعمال کریں تو مسلمانوں کے اجتماعی مفاد کی خاطر انہیں بےدریغ قتل کردینا چاہیے اور ایسے لوگوں کے کمزور ہونے کے عذر کو اللہ نے قبول نہیں فرمایا کیونکہ یہ کمزوری نہیں بلکہ گھر بار کی محبت اور مال و دولت کی ہوس تھی جس کی وجہ سے وہ ہجرت نہیں کرتے تھے یا پھر اسے بزدلی پر محمول کیا جائے گا۔