وَإِذَا الْمَوْءُودَةُ سُئِلَتْ
اور جب زندہ درگور کی گئی لڑکی سے پوچھا جائے گا
[٩] زندہ درگور کرنے کی وجوہ اور اس رسم کا سد باب :۔ ایک قراءت میں سُئِلَتْ کے بجائے سَئَلَتْ بھی آیا ہے یعنی زندہ درگور کردہ لڑکی خود اپنے پروردگار سے فریاد کرے گی کہ مجھے کس جرم کی پاداش میں زمین میں گاڑا گیا تھا ؟ لیکن سُئِلَت کی قرائت سَئَلَت سے زیادہ ابلغ ہے جس کا مطلب یہ ہے اللہ تعالیٰ ایسے بے رحم اور سنگدل ظالموں کی طرف نہ دیکھنا پسند کرے گا اور نہ ان سے بات کرنا پسند کرے گا بلکہ ان کے بجائے مظلوم لڑکی کی طرف متوجہ ہو کر اس سے پوچھا جائے گا کہ اسے کس جرم کی پاداش میں قتل کیا گیا تھا ؟ اور یہ انداز خطاب اللہ تعالیٰ کا مجرموں پر انتہائی غضب ناک ہونے پر دلیل ہے۔ رہی یہ بات کہ اہل عرب اتنے سنگدل کیوں واقع ہوئے تھے جو اپنی بیٹیوں کو اس قدر حقیر جنس تصور کرتے تھے کہ انہیں زندہ گاڑ دیتے تھے؟ تو اس کا بیان پہلے متعدد مقامات پر گزر چکا ہے۔ مختصراً اس کی تین وجوہ تھیں (١) وہ تنگدست اور مفلس ہوجانے کے خطرہ سے اولاد کو مار ڈالتے تھے اور اس وجہ کے لحاظ سے لڑکوں اور لڑکیوں میں کوئی فرق نہ تھا۔ (٢) وہ کسی کو اپنا داماد بنانا اپنے لیے باعث ننگ و عار سمجھتے تھے۔ (٣) اور تیسری اور سب سے اہم وجہ یہ تھی کہ اہل عرب ہر وقت قبائلی جنگوں میں مشغول رہتے تھے اور ایسی جنگوں میں نرینہ اولاد تو ان کی جانشین یا مددگار بنتی تھی۔ مگر لڑکیوں کا معاملہ لڑکوں سے بالکل الگ تھا۔ وہ جس قبیلہ میں بیاہی جاتیں انہیں اسی کا ساتھ دینا پڑتا تھا اور لڑکی کے والدین کے قبیلہ کو اس کے آگے سرنگوں ہونا پڑتا تھا۔ اور غالباً یہی وجہ تھی کہ اہل عرب نے لڑکیوں کو وراثت سے محروم کر رکھا تھا۔ اسلام نے اس نظریہ کو ختم کرنے کے لیے دو طرفہ اقدام کیے۔ ایک تو قتل اولاد اور لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کو عام قتل سے بھی زیادہ شدید جرم قرار دیا اور لوگوں کے اس خیال کی پرزور تردید کی کہ وہ اپنی اولاد کو مار ڈالنے کا حق رکھتے ہیں۔ اور دوسرے لڑکیوں کی تربیت اور پرورش کو بہت بڑا نیک عمل قرار دے کر اس کی ترغیب دی۔ چنانچہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ نے فرمایا : جو شخص ان لڑکیوں کی پیدائش سے آزمائش میں ڈالا جائے۔ پھر وہ ان سے نیک سلوک کرے تو یہ لڑکیاں اس کے لیے جہنم کے عذاب سے بچاؤ کا ذریعہ بنیں گی۔ (ترمذی۔ ابو اب البروالصلۃ۔ باب ماجاء فی النفقات علی البنات)