سورة عبس - آیت 26

ثُمَّ شَقَقْنَا الْأَرْضَ شَقًّا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

پھر ہم نے زمین کو اچھی طرح پھاڑدیا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] بارش کا زمین پر اثر : یعنی انسان اگر اپنے کھانے کی چیزوں میں ہی غور کرلیتا تو اسے اپنے پروردگار کی ناشکری کی کبھی جرأت نہ ہوسکتی تھی۔ انسان کا کام صرف اتنا ہے کہ وہ زمین میں سطح زمین سے تھوڑا سا نیچے بیج اتار دے۔ بس اس کے بعد اس کا کام ختم ہوجاتا ہے۔ خواہ انسان یہ کام زمین میں ہل چلا کر کرے یا کسی دوسرے ذریعہ سے کرے۔ زمین پر بارش برسانا اللہ کا کام ہے۔ یہی بارش کا پانی کبھی ندی نالوں، دریاؤں اور نہروں سے حاصل ہوتا ہے اور کبھی چشموں اور کنووں سے۔ بہرحال وہ بارش ہی کا جمع شدہ پانی ہوتا ہے۔ زمین میں بالیدگی :۔ پانی اور زمین کی اوپر کی سطح جب مل جاتے ہیں تو ایسی مٹی میں اللہ تعالیٰ نے یہ خاصیت رکھی ہے کہ وہ بیج کو کھول دیتی ہے۔ اس مردہ اور بے جان بیج میں زندگی کی رمق پیدا ہوجاتی ہے اور وہ کونپل کی شکل اختیار کرلیتا ہے۔ بیج میں درخت کی خصوصیات :۔ پھر اس نرم و نازک کونپل میں، جو ہوا کے ایک معمولی سے جھونکے کو بھی برداشت نہیں کرسکتی۔ اللہ تعالیٰ نے بالیدگی کی اتنی قوت بھر دی ہے کہ وہ کونپل دو تین دن بعد اوپر سے ملی ہوئی زمین کو پھاڑ کر زمین کے اندر سے یوں باہر نکل آتی ہے جیسے بچہ ماں کے پیٹ سے باہر نکل آتا ہے۔ پھر یہی بیج آہستہ آہستہ مکمل پودا یا تناور درخت بن جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ زمین میں بالیدگی کی استعداد نہ رکھتا یا بیج میں وہ تمام خصوصیات نہ رکھتا جو اس کے پودے یا درخت میں تھیں، یا بارش ہی نہ برساتا تو کیا انسان کے پاس کوئی ایسا ذریعہ ہے جس سے وہ اپنی خوراک حاصل کرسکتا ؟