وَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ كَمَا كَفَرُوا فَتَكُونُونَ سَوَاءً ۖ فَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ أَوْلِيَاءَ حَتَّىٰ يُهَاجِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَخُذُوهُمْ وَاقْتُلُوهُمْ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ۖ وَلَا تَتَّخِذُوا مِنْهُمْ وَلِيًّا وَلَا نَصِيرًا
وہ تو چاہتے ہیں کہ ان کی طرح تم لوگ بھی کافر (96) ہوجاؤ، تاکہ تم سب برابر ہوجاؤ، پس تم لوگ ان میں سے کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ، یہاں تک کہ اللہ کی راہ میں ہجرت کرجائیں، اگر نہ کریں تو انہیں پکڑ لو، اور جہاں پاؤ، انہیں قتل کرو، اور ان میں سے کسی کو اپنا حامی و مددگار نہ بناؤ
[١٢٣] مدینہ کے پاس کے منافقین ان کی اقسام :۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے کہ منافقوں کی ایک قسم ایسی بھی تھی جو مدینہ کے اردگرد پھیلے ہوئے قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ یہ لوگ مسلمانوں سے خیر خواہی اور محبت کا اظہار ضرور کرتے تھے مگر عملی طور پر اپنے ہم وطن کافروں کا ساتھ دیتے تھے یا دینے پر مجبور تھے ان کے لیے معیار یہ مقرر کیا گیا کہ اگر وہ ہجرت کر کے تمہارے پاس مدینہ آ جائیں اور تمہارے ساتھ شامل ہوجائیں تو اس صورت میں تم انہیں سچا بھی سمجھو اور اپنا ہمدرد بھی۔ اور اگر وہ اسلام کی خاطر اپنا گھر بار چھوڑنے کی قربانی دینے پر تیار نہیں حالانکہ وہ ایسا کرسکتے ہیں تو تم ان پر ہرگز اعتماد نہ کرو نہ انہیں اپنا دوست بناؤ اور نہ سمجھو اور اگر ایسے لوگ کافروں کے ساتھ تمہارے خلاف صف بستہ ہوجاتے ہیں تو انہیں قتل کرنے سے ہرگز دریغ نہ کرو۔