فَمَا لَكُمْ فِي الْمُنَافِقِينَ فِئَتَيْنِ وَاللَّهُ أَرْكَسَهُم بِمَا كَسَبُوا ۚ أَتُرِيدُونَ أَن تَهْدُوا مَنْ أَضَلَّ اللَّهُ ۖ وَمَن يُضْلِلِ اللَّهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ سَبِيلًا
پس تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ منافقین (95) کے بارے میں دو گروہوں میں بٹ گئے ہو، حالانکہ اللہ نے تو ان کے کیے کی وجہ سے انہیں اوندھا منہ گمراہی میں دھکیل دیا، کیا تم لوگ اسے ہدایت دینا چاہتے ہو جسے اللہ نے گمراہ کردیا ہو، اور اللہ جس کو گمراہ کردے اس کے لیے آپ راہ نہ پائیں گے
[١٢١] منافقوں کے بارے میں دو گروہ :۔ اس آیت کا شان نزول درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ : جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم احد کی طرف نکلے تو کچھ لوگ (منافقین) آپ کو چھوڑ کر مدینہ واپس آ گئے۔ ان واپس ہونے والوں کے بارے میں صحابہ کے دو گروہ ہوگئے۔ ایک کہتا تھا کہ ہم ان سے (بھی) لڑائی کریں گے اور دوسرا کہتا تھا کہ ہم ان سے لڑائی نہ کریں گے۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی۔ (بخاری، کتاب التفسیر، نیز کتاب المغازی، باب غزوہ احد۔۔ مسلم، کتاب صفۃ المنافقین) [١٢٢] یعنی ان منافقوں نے واپس جا کر اپنی منافقت کا ثبوت مہیا کردیا ہے۔ اب اگر تم یہ چاہو کہ ہمیں ان سے لڑائی نہ کرنی چاہیے شاید کہ وہ راہ راست پر آ جائیں تو یہ بات تمہارے بس میں نہیں۔ اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ ایسے منافقین واجب القتل ہیں کیونکہ حقیقتاً ان کے ارادے یہ ہیں کہ تمہیں بھی اپنے جیسا بنا کے چھوڑیں۔