سورة عبس - آیت 1

عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

نبی ترش رو (١) ہوگئے اور انہوں نے منہ پھیر لیا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١] ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں چند قریشی سردار بیٹھے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں اسلام کی دعوت دے رہے تھے۔ روایات میں ان کے نام عتبہ، شیبہ، ابو جہل، امیہ بن خلف اور ابی بن خلف ملتے ہیں۔ یہ لوگ بعد میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بدترین دشمن ثابت ہوئے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ سورت اس زمانے میں نازل ہوئی تھی۔ جب قریشی سردار اسلام دشمنی کی حد تک نہیں پہنچے تھے۔ اسی دوران سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم آپ کے پاس تشریف لائے۔ یہ عبداللہ بن ام مکتوم نابینا تھے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے پھوپھی زاد بھائی تھے اور ابتدائی اسلام لانے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے آتے ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آیت کا مطلب پوچھا۔ اور جو لوگ اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے تھے انہیں آپ دیکھ نہیں سکتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ناگوار محسوس ہوا۔ اور اس ناگواری کے اثرات آپ کے چہرہ پر بھی نمودار ہوگئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف کوئی توجہ نہ دی اور انہیں خاموش کرا دیا۔ جس کی وجہ یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی طرف سے مطمئن تھے کہ وہ خالص مومن ہیں انہیں بعد میں سمجھا لیں گے سردست اگر ان سرداروں میں سے کوئی ایک بھی اسلام کے قریب آگیا تو اس سے اسلام کو خاصی تقویت پہنچ سکتی ہے اسی وجہ سے آپ قریشی سرداروں سے ہی محو گفتگو رہے۔ اس وقت یہ سورت نازل ہوئی جسے امام ترمذی نے مختصراً یوں ذکر کیا ہے : عبداللہ بن ام مکتوم اور راہ ہدایت کی جستجو' طلب صادق :۔ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سورت کی ابتدائی آیات عبداللہ بن ام مکتوم کے بارے میں نازل ہوئیں۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ کہتے رہے کہ یارسول اللہ مجھے دین کی راہ بتائیے۔ اس وقت آپ کے پاس مشرکوں میں سے کوئی بڑا آدمی بیٹھا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے (یعنی عبداللہ) سے اعراض کرتے تھے اور دوسرے (مشرک) کی طرف متوجہ ہوتے تھے۔ اور عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کیا میری بات میں کوئی برائی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے تھے۔ نہیں۔ اس بارے میں یہ سورت نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) اس سورت کے انداز خطاب سے بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ عتاب کا رخ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے حالانکہ اس عتاب کے بیشتر حصہ کا روئے سخن قریشی سرداروں کی طرف ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ عتاب نازل ہوا اس کا انداز بھی عجیب ہے۔ پہلی آیت میں صیغہ واحد مذکر غائب استعمال کیا گیا ہے۔ پھر تیسری آیت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو براہ راست مخاطب کیا گیا ہے جس سے ایک تو کلام میں حسن پیدا ہوگیا اور دوسرے عتاب کے انداز کو انتہائی نرم کردیا گیا ہے۔ اس عتاب میں آپ کے دعوت حق کی تبلیغ کے طریق کار پر تنقید کی گئی ہے کہ اصولاً اس دعوت کے لیے توجہ کا اولین مستحق وہ ہوتا ہے۔ جو خود بھی ہدایت کا طالب ہو۔ اس واقعہ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن ام مکتوم سے بہت تعظیم و تکریم سے پیش آتے اور فرمایا کرتے ''مَرحَبَا بِمَنْ عَاتَبَنِی فِیْہِ رَبِّی'' (خوش آمدید اس شخص کو جس کے بارے میں اللہ نے مجھ پر عتاب فرمایا) نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدنی زندگی میں کئی بار آپ کو مدینہ میں اپنا نائب اور حاکم بنایا جب آپ جہاد وغیرہ کے سلسلہ میں مدینہ سے باہر جاتے تھے۔ آپ نابینا ہونے کے باوجود جہاد میں عملاً حصہ لیا کرتے تھے۔ آپ دور فاروقی میں جنگ قادسیہ میں جہاد کرتے ہوئے شہید ہوئے۔