يَوْمَ تَرْجُفُ الرَّاجِفَةُ
(تم ضرور اٹھائے جاؤ گے) جس دن کانپنے (٢) والی (یعنی زمین) کانپنے لگے گی
[٦] مذکورہ بالا پانچ قسم کے فرشتوں اور ان کے کارناموں کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے کفار مکہ پر روز آخرت کے قیام پر حجت قائم فرمائی کہ جو فرشتے تمہاری رگ رگ سے روح نکال کر تمہیں موت سے دوچار کرتے ہیں اور تمہاری روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں وہ کسی وقت یہی روح تمہارے جسم میں داخل بھی کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ کفار مکہ فرشتوں کی ہستی اور ان کے کارناموں کے قائل تھے۔ ان کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ وہ فرشتوں کو اللہ کی بیٹیاں سمجھتے تھے۔ فلہٰذا انہیں بھی تدبیر امور کائنات میں اللہ کا شریک سمجھتے تھے۔ اگرچہ مختار کل اللہ ہی کو سمجھتے تھے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے فرشتے نہ اللہ کی بیٹیاں ہیں اور نہ اللہ کے شریک، بلکہ وہ اللہ کی مخلوق اور اس کے فرمانبردار بندے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے سرتابی کر ہی نہیں سکتے۔ تدبیر امور میں ان کے لیے اپنے اختیار کو ذرہ بھر بھی عمل دخل نہیں۔