إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا
بے شک ہم نے راہ راست کی طرف اس کی رہنمائی کردی ہے، چاہے تو وہ شکر گذار بنے اور چاہے تو ناشکری کرے
[٤] انسان کی ہدایت کے لیے کون کون سے ذرائع اللہ نے بنائے ہیں؟:۔] راہ دکھانے کی بے شمار صورتیں ہیں۔ مثلاً: ١۔ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو فطرت سلیمہ پر پیدا کیا ہے۔ جس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے خالق و مالک کا حق پہچانے۔ اسی چیز کو اللہ تعالیٰ نے قرآن میں عہدالست سے تعبیر فرمایا ہے۔ ٢۔ ہر انسان میں برے اور بھلے کی تمیز رکھ دی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ جب انسان کوئی برا کام کرتا ہے تو اس کا ضمیر اسے ملامت کرنے لگتا ہے۔ ٣۔ انسان جب مصائب میں گھر جاتا ہے تو غیر شعوری اور اضطراری طور پر اس کی نگاہیں اپنے خالق کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور وہ فریاد کے لیے اسے پکارنے لگتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ مشکلات میں اپنے خالق یا کسی ان دیکھی بالاتر قوت پر تکیہ کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ ٤۔ کائنات میں اللہ تعالیٰ کی ہر سو بکھری ہوئی آیات پر غور کرنے سے بھی انسان کو ایک ایسی عظیم، مقتدر اور بالاتر ہستی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔ جو اس کائنات کا نہایت مربوط نظم و نسق چلا رہی ہے اور انسان کو یہ یقین کرنا پڑتا ہے کہ خود اس ہستی کے دائرہ اقتدار سے کسی صورت باہر نہیں نکل سکتا۔ لہٰذا اس کی اطاعت کے بغیر اس کے لیے کوئی دوسرا چارہ کار نہیں۔ ٥۔ وہ کائنات میں یہ منظر بھی دیکھتا ہے کہ بعض ظالم زندگی بھر ظلم و جور کے طوفان اٹھانے کے بعد اس دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی سزا نہیں ملتی۔ اسی طرح بعض انسان ساری زندگی انسانیت کی خدمت میں گزار کر اور مصیبتیں سہہ سہہ کر دنیا سے رخصت ہوجاتے ہیں اور انہیں کوئی صلہ نہیں ملتا۔ حالانکہ یہ نظام کائنات انتہائی عدل اور توازن و تناسب پر قائم ہے جس سے وہ اس نتیجہ پر پہنچتا ہے کہ انسان کو یقیناً ایک دوسری زندگی بھی مہیا کی جانی چاہیے جس میں عدل و انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں اور ٦۔ ان سب ذرائع سے بڑھ کر اللہ نے انسان کی ہدایت کا یہ اہتمام فرمایا کہ انبیاء اور کتابیں ہر دور میں بھیج کر انسانوں پر اتمام حجت کردی۔ ان سب باتوں کے بعد انسان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا کہ اب وہ اپنے اختیار کا صحیح استعمال کرکے اس کا فرمانبردار اور شکرگزار بندہ بننا چاہتا ہے یا دنیا کی دلکشی میں مست ہو کر اللہ کو بھول جاتا یا اس کی سرکشی کی راہ اختیار کرکے نمک حرام بن جاتا ہے۔ [٥] یہ دنیا نہ دارا لجزاء ہے نہ دارالعیش بلکہ دارالعمل ہے :۔ اس دنیا میں انسان کی تخلیق کا ٹھیک مقصد یہ ہے کہ یہ دنیا اس کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں اس کی یہ آزمائش مقصود ہے کہ وہ اچھے یا برے کیسے اعمال بجا لاتا ہے؟۔ یہ دنیا دارالجزاء نہیں ہے کہ ہر ظالم کو یہاں فوراً سزا مل جائے یا نیک آدمی کو اس کی نیکی کا فوری طور پر بدلہ مل جائے۔ یہ دارالعذاب بھی نہیں ہے۔ رُہبان' اہل تناسخ اور اشتراکی نظریات کی تردید :۔ جیسا کہ اہل طریقت، رہبان اور درویش قسم کے لوگوں کا خیال ہے کہ جسم کو عذاب دے دے کر روح کی ترقی کی منزلیں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔ نیز یہ دنیا اہل تناسخ کے نظریہ کے مطابق دارالجزاء بھی نہیں ہے کہ انسان اگر اپنی پہلی جون (زندگی) میں گناہ کرتا رہا ہے تو اب اس کی روح کسی ناپاک جسم مثلاً کتے یا سور میں ڈال دی جائے گی یا اگر وہ پچھلی جون میں نیک اعمال بجا لاتا رہا ہے تو اس کی روح کسی مہاتما کے جسم میں ڈال دی جائے گی۔ نیز یہ دنیا دہریوں، آخرت کے منکروں اور دنیا داروں کے نظریہ کے مطابق دارالعیش یا تفریح گاہ بھی نہیں ہے کہ انسان یہاں جیسے جی چاہے زندگی گزار کر چلتا بنے اور اس کے اعمال پر اس سے کوئی بازپرس کرنے والا نہ ہو۔ نیز یہ دنیا جدلیاتی کشمکش کا میدان بھی نہیں ہے جیسا کہ ڈارون اور کارل مارکس کے پیروکار سمجھتے ہیں۔ بلکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے۔ جہاں وہ جیسا بوئے گا آخرت میں ویسا ہی کاٹے گا۔