وَقِيلَ مَنْ ۜ رَاقٍ
اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا
[١٧] اس کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ﴿مَنْ رَ ا قٍ﴾ کو فرشتوں کا کلام سمجھا جائے اور راق کو رقی بمعنی اوپر چڑھنے سے مشتق قرار دیا جائے اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ فرشتے ایک دوسرے سے پوچھیں گے کہ اس شخص کی روح کو جنت کے فرشتے لے کر اوپر چڑھیں گے یا دوزخ کے؟ اور دوسرا مطلب یہ ہے راق کو رقیۃ بمعنی دم جھاڑ سے مشتق قرار دیا جائے۔ اس صورت میں یہ مطلب ہوگا کہ جب میت کے لواحقین اس کے علاج سے عاجز آجاتے ہیں تو پھر ایک دوسرے سے پوچھتے ہیں کہ کوئی دم جھاڑ کرنے والا ہے؟ اور یہ میت کے علاج یا اسے موت کے منہ سے سے بچانے کے لئے آخری حربہ کے طور پر اختیار کیا جاتا ہے۔ واضح رہے علاج کروانا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ اور دم جھاڑ کی اجازت ہے بشرطیکہ اس میں شرکیہ کلمات نہ ہوں۔ تاہم اللہ پر توکل کرنے والوں اور ہر حال میں اللہ کی رضا پر راضی رہنے والوں کا درجہ علاج کرانے والوں سے بہت بلند ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ میری امت میں سے ستر ہزار آدمی بے حساب جنت میں جائیں گے یہ کہہ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اندر چلے گئے اور یہ نہیں بتایا کہ وہ ستر ہزار کون لوگ ہوں گے؟ بلاحساب جنت میں جانے والے متوکلین :۔ اب صحابہ قیاس دوڑانے لگے اور کہنے لگے یہ ستر ہزار ہم لوگ ہوں گے جو اللہ پر ایمان لائے اور اس کے پیغمبر کی پیروی کی یا ہماری اولاد ہوگی جو اسلام کے دین پر ہی پیدا ہوئی۔ کیونکہ ہم لوگ تو جاہلیت اور کفر کے دور میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ کو یہ خبر پہنچی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم باہر نکلے اور فرمایا : ’’یہ ستر ہزار وہ لوگ ہیں جو نہ منتر کرتے ہیں نہ برا شگون لیتے ہیں، نہ داغ لگواتے ہیں بلکہ اپنے پروردگار پر بھروسہ رکھتے ہیں‘‘ یہ سن کر ایک صحابی عکاشہ بن محصن کھڑے ہوئے اور کہنے لگے : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا میں ان لوگوں سے ہوں گا ؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :''ہاں'' پھر ایک اور صحابی (سعد بن عبادہ) کھڑے ہو کر کہنے لگے :’’کیا میں بھی ان سے ہوں؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تم سے پہلے عکاشہ ان لوگوں میں ہوچکا‘‘ (بخاری۔ کتاب الطب والمرضیٰ۔ باب من لم یرق) دوا سے علاج کرانے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ یہ علاج حرام اشیاء سے نہ کیا جائے لیکن دم جھاڑ کرنا کوئی مستحسن فعل نہیں۔ البتہ بعض شرائط کے تحت اس کی اجازت دی گئی ہے۔ جیسا کہ درج ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے : ١۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میرا ماموں بچھو کا منتر کیا کرتا تھا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منتروں سے منع کردیا۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منتروں کو منع کردیا اور میں بچھو کا منتر کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو فائدہ پہنچا سکے اسے پہنچانا چاہیے‘‘ (مسلم۔ کتاب السلام۔ باب استحباب رقیۃ المریض) ٢۔ سیدنا عوف بن مالک اشجعی فرماتے ہیں کہ ہم جاہلیت کے زمانہ میں منتر کیا کرتے تھے۔ ہم نے کہا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ اس بارے میں کیا فرماتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے منتروں کو میرے سامنے پیش کرو۔ اگر اس میں شرک کا مضمون نہ ہو تو کچھ قباحت نہیں‘‘ (مسلم۔ ایضاً) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب کوئی گھر میں بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر معوذات (سورۃ العلق اور سورۃ الناس) پڑھ کر پھونکتے۔ پھر جب آپ مرض الموت میں مبتلا ہوئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھونکتی اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہی کا ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پھیرتی۔ کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ میں میرے ہاتھ سے زیادہ برکت تھی۔ (مسلم۔ ایضاً) ٤۔ عثمان بن ابی العاص ثقفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے شکوہ کیا کہ جب سے میں اسلام لایا ہوں میرے بدن میں کچھ درد سا رہتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اپنا ہاتھ درد کی جگہ پر رکھو اور تین بار بسم اللہ کہو پھر سات بار یہ کہو : اعوذ باللّٰہ وقدرتہ من شرما اجد واحاذر (یعنی میں اللہ سے اس برائی سے پناہ مانگتا ہوں جسے میں پاتا ہوں اور جس سے ڈرتا ہوں) (مسلم۔ ایضاً) ٥۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہم میں سے جب کوئی بیمار ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس پر اپنا داہنا ہاتھ پھیرتے پھر فرماتے ”اَذْھِبِ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ وَاشْفِ اَنْتَ الشَّافِیْ لاَ شِفَاء الاَّشِفَاءُ کَ شِفَائً لاَّ یُغَادِرُ سَقَمًا “ ( اے لوگوں کے پروردگار! یہ بیماری دور کر دے۔ تو ہی شفا دینے والا ہے۔ شفا تیری ہی شفا ہے۔ ایسی شفا دے کہ بیماری بالکل نہ رہے) (مسلم۔ ایضاً) ٦۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب کسی مریض پر دم جھاڑ کرتے تو فرماتے '”بِسْمِ اللّٰہِ تُرْبَۃُ اَرْضِنَا بِرِیْقَۃِ بَعْضِنَا یَشْفِیْ سَقِیْمَنَا باذْنِ رَبِّنَا “ (یعنی اللہ کے نام سے ہماری زمین (مدینہ) کی مٹی ہم میں سے کسی کے تھوک سے کرے ہمارے مالک کے حکم سے مریض کو تندرست کر دے گی) (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب رقیۃ النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ٧۔ سورۃ فاتحہ سے بچھو کے کاٹے کا دم :۔ سیدنا ابو سعید خدری فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کئی اصحاب عرب کے ایک قبیلہ پر پہنچے۔ لیکن انہوں نے صحابہ کی ضیافت نہ کی۔ اسی دوران ان کے سردار کو بچھو نے کاٹا۔ وہ صحابہ کے پاس آئے اور کہنے لگے : تمہارے پاس بچھو کے کاٹے کی کوئی دوا یا منتر ہے؟ انہوں نے کہا : ہے تو سہی لیکن چونکہ تم نے ہماری ضیافت نہیں کی لہٰذا ہم معاوضہ کے بغیر منتر نہیں کریں گے۔ آخر انہوں نے کچھ بکریاں (٣٠ بکریاں) دینا قبول کیں۔ تب ایک صحابی (خود ابو سعید خدری) نے سورۃ فاتحہ پڑھنا شروع کی۔ وہ سورۃ فاتحہ پڑھتے اور تھوک منہ میں اکٹھا کرکے زخم پر تھوک دیتے۔ وہ سردار اچھا ہوگیا۔ قبیلہ کے لوگ بکریاں لے کر آئے تو صحابہ کو تردد ہوا کہ جب تک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھ نہ لیا جائے ان بکریوں کو قبول کیا جائے یا نہ کیا جائے؟ چنانچہ جب صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ ہنس دیئے اور فرمایا : ارے تجھے یہ کیسے معلوم ہوا کہ سورۃ فاتحہ منتر بھی ہے۔ بکریاں لے لو اور میرا حصہ بھی لگاؤ'' (بخاری۔ کتاب الطب۔ باب الرقی بفاتحۃ الکتاب) ٨۔ تعویذ گنڈوں کی ممانعت :۔ ابو بشیر انصاری فرماتے ہیں کہ ہم ایک سفر میں اپنے آرام کے ٹھکانے میں تھے۔ اتنے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک شخص (زید بن حارثہ) کے ہاتھ یہ پیغام کہلا بھیجا کہ کسی اونٹ کی گردن میں تانت یا گنڈا ہو وہ کاٹ ڈالا جائے (بخاری۔ کتاب الجہاد۔ باب ماقیل فی الجرس و نحوہ فی اعناق الابل) ٩۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس ایک وفد بیعت کے لیے حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے نو کی بیعت لی مگر ایک سے نہ لی۔ وجہ دریافت کرنے پر فرمایا کہ اس نے تعویذ پہنا ہوا ہے پھر ہاتھ ڈال کر اس کا تعویذ کاٹ ڈالا اور بیعت لے لی اور فرمایا : ”مَنْ عَلَّقَ تَمِیْمَۃً فَقَدْ اَشْرَک“ (مسند احمد ج ٤ ص ٧٥) مطبوعہ احیاء السنہ ان احادیث سے درج ذیل نتائج سامنے آتے ہیں : ١۔ دم جھاڑ کا مسنون طریقہ صرف یہ ہے کہ مریض پر قرآن کی آیات یا مسنون دعائیں پڑھ کر دم کردیا جائے۔ البتہ اگر دم جھاڑ کے الفاظ کے معنی کی پوری طرح سمجھ آجائے اور اس میں شرک کی کوئی بات نہ ہو تو ایسا دم کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ٢۔ اس کے علاوہ جتنی بھی صورتیں مروج ہیں مثلاً تعویذ لکھ کر پانی میں گھول کر پلانا، گلے میں لٹکانا یا ران یا کلائی پر باندھنا، کپڑے پہننا، موتی وغیرہ لٹکانا سب کے سب ناجائز اور خلاف سنت اور بدعت ہیں۔ ٣۔ دم جھاڑ کو پیشہ نہیں بنایا جاسکتا۔ اس کی پیشگی اجرت طے کرنا ممنوع ہے۔ البتہ بعد میں اگر کوئی اپنی خوشی سے ہدیہ دے دے تو اس کے لینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ ٤۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے جو ٣٠ بکریاں پیشگی طے کرکے لیں تو یہ ایک استثنائی واقعہ ہے اور اس کی وجہ حدیث میں مذکور ہے۔ ایک تو وہ کافر تھے۔ دوسرے انہوں نے اہل عرب کے معروف دستور کے خلاف مسلمانوں کی مہمان نوازی سے انکار کردیا تھا۔ لہٰذا یہ بکریاں ان سے سزا کے طور پر لی گئی تھیں۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف سے اس بات کی اجازت تھی کہ اگر لوگ مہمان نوازی کا حق ادا نہ کریں تو ان سے جبراً بھی وصول کیا جاسکتا ہے۔ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب اکرام الضیف وخدمتہ ایاہ بنفسہ)