سورة المدثر - آیت 46

وَكُنَّا نُكَذِّبُ بِيَوْمِ الدِّينِ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور ہم قیامت کے دن کی تکذیب کرتے تھے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] دوزخ میں لے جانے والے چار بڑے گناہ :۔ اہل دوزخ نے اہل جنت کے سوال کے جواب میں چار باتیں بتائیں گے جو انہیں دوزخ میں لے جانے کا باعث بنیں۔ پہلی یہ کہ ہم نماز ادا نہیں کرتے تھے۔ کیونکہ نماز کی باقاعدگی صرف وہ شخص کرسکتا ہے جو اللہ پر بھی ایمان رکھتا ہو اور روز آخرت کے محاسبہ پر بھی۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص باقاعدہ نماز ادا کرتا ہے تم اس کے ایماندار ہونے کی گواہی دو۔ جس کا دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جو شخص نماز ادا نہیں کرتا، نہ اس کا اللہ پر ایمان ہوتا ہے نہ روزآخرت پر، دوسرا جرم وہ یہ بتائیں گے کہ وہ مسکین کو کھانا نہیں کھلایا کرتے تھے۔ پہلا جرم اللہ کے حق سے متعلق تھا۔ یہ دوسرا جرم بندوں کے حقوق سے تعلق رکھتا ہے۔ بھوکے کو کھانا کھلانے کے سلسلہ میں یہ ضروری نہیں کہ بھوکا مسلمان ہو۔ بلکہ کوئی بھی ہو کسی بھی مذہب سے تعلق رکھتا ہو اگر بھوکا ہے تو انسان ہونے کے ناطے سے یہ اس کا حق ہے کہ اسے کھانا کھلایا جائے۔ اگر ننگا ہے تو اسے کپڑا دیا جائے یا اگر بیمار ہے تو اس کا علاج کیا جائے۔ اور اگر وہ مسلمان ہے یا کوئی قرابتدار بھی ہے تو اس کا حق بہت زیادہ بڑھ جاتا ہے۔ تیسرا جرم وہ بتائیں گے کہ جو لوگ اللہ کی آیات کا تمسخر اڑایا کرتے تھے۔ یا اللہ کی آیات میں شکوک و شبہات پیدا کرتے رہتے تھے ہم بھی ان کے ساتھ مل جایا کرتے تھے اور یہ سب باتیں اس وجہ سے تھیں کہ ہمارا آخرت کے دن پر یقین نہیں تھا۔ گویا ہمارا اصل اور سب سے بڑا جرم یہی تھا کہ ہمیں آخرت کے دن اللہ کے سامنے اپنے اعمال کے لیے جواب دہی پر ایمان نہیں تھا اور ہم برملا اسے جھٹلا دیا کرتے تھے۔ ایسے ہی وقت گزرتا رہا تاآنکہ ہمیں موت آگئی۔ جس نے سب حقائق ہم پر منکشف کردیئے۔