وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا إِلَىٰ مَا أَنزَلَ اللَّهُ وَإِلَى الرَّسُولِ رَأَيْتَ الْمُنَافِقِينَ يَصُدُّونَ عَنكَ صُدُودًا
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اللہ کی نازل کردہ کتاب اور رسول کے پاس آؤ تو آپ منافقین کو دیکھتے ہیں کہ یہ آپ سے اعراض کر رہے ہوتے ہیں
[٩٣] سیدنا عمر کا منافق کے حق میں فیصلہ :۔ ہوا یہ تھا کہ ایک یہودی اور ایک منافق (مسلمان) کا کسی معاملہ میں جھگڑا ہوگیا۔ یہودی چونکہ حق بجانب تھا لہٰذا اس نے منافق سے کہا کہ چلو اس کا فیصلہ تمہارے رسول سے کرا لیتے ہیں (یعنی یہودیوں کا بھی یہ ایمان ضرور تھا کہ یہ نبی حق ہی کا ساتھ دیتا ہے) مگر منافق اس سے پس و پیش کرنے لگا۔ اسے بھی یہ خطرہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حق کا ساتھ دیں گے اور فیصلہ میرے خلاف ہوجائے گا لہٰذا وہ لیت و لعل کرنے لگا اور کہنے لگا کہ یہ مقدمہ تمہارے سردار کعب بن اشرف کے پاس لے چلتے ہیں جہاں اس منافق کو توقع تھی کہ مکر و فریب اور رشوت سے فیصلہ میرے حق میں ہوسکتا ہے۔ مگر یہودی یہ بات نہ مانا کیونکہ اسے بھی اپنے اس سردار کے کردار کا پتہ تھا اور منافق چونکہ کھل کر یہ بھی نہیں کہہ سکتا تھا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس نہ جاؤں گا اس لیے بالآخر یہی طے پایا کہ فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کرایا جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فریقین کی بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ دے دیا تو اب منافق کہنے لگا کہ چلو اب یہ مقدمہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ابن خطاب کے پاس لے جا کر ان کا بھی فیصلہ لیتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ان دنوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اجازت سے اور ان کے نائب کی حیثیت سے مدینہ میں مقدمات کے فیصلے کیا کرتے تھے۔ منافق کا یہ خیال تھا کہ چونکہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ میں اسلامی حمیت بہت ہے لہٰذا وہ میرے حق میں فیصلہ دے دیں گے۔ چنانچہ یہودی اور منافق دونوں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں جا کر اس مقدمہ کا فیصلہ چاہا۔ پھر اپنے اپنے بیان دیے۔ یہودی نے اپنا بیان دینے کے بعد یہ بھی کہہ دیا کہ ہم یہ مقدمہ تمہارے نبی کے پاس لے گئے تھے اور انہوں نے میرے حق میں فیصلہ دیا ہے یہ سنتے ہی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اندر گئے اور تلوار نکال لائے اور آتے ہی اس منافق کا سر قلم کردیا اور فرمایا کہ جو شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کو تسلیم نہ کرے اس کے لیے میرے پاس یہی فیصلہ ہے۔