يَا أَيُّهَا الْمُدَّثِّرُ
اے چادر اوڑھنے والے (١)
[١] وحی کی گرانیاری :۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سب سے پہلی جو وحی غار حرا میں نازل ہوئی وہ سورۃ العلق کی ابتدائی پانچ آیات تھیں۔ ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ خالق کائنات ہے۔ اسی نے آپ کو بھی پیدا کیا ہے اور اسی نے یہ فرشتہ نازل کیا ہے۔ ان آیات میں آپ کو تبلیغ وغیرہ کا حکم نہیں دیا گیا تھا۔ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر پڑنے والی ذمہ داریوں کے لئے تیار کرنا مقصود تھا۔ فرشتہ جبریل کے ذریعہ نبی کے دل پر جو وحی نازل ہوتی ہے۔ نبی کے لئے سخت تکلیف دہ اور گرانبار ہوتی ہے۔ اس دوران پہلے گھنٹی کی سی آوازیں آنے لگتی ہیں۔ پھر نبی کا اس عالم سے رشتہ کٹ کر عالم بالا سے جڑ جاتا ہے اور اس وحی کا اتنا بار ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بعض اوقات سردیوں میں وحی کے وقت پسینہ آجاتا تھا۔ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کی ران پر ران رکھے ہوئے تھے کہ وحی کا نزول شروع ہوا۔ سیدنا زید کہتے ہیں کہ میں نے اس کا اتنا بوجھ محسوس کیا کہ مجھے ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ نیچے سے میری ران ٹوٹ جائے گی۔ اور ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اونٹنی پر سوار تھے۔ وحی نازل ہونا شروع ہوئی تو اس کے بوجھ اور دباؤ سے اونٹنی نیچے بیٹھ گئی تھی۔ چنانچہ پہلی دفعہ غار حرا میں جب وحی نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود ارشاد فرماتے ہیں کہ اس تکلیف اور بوجھ سے مجھے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہوگیا تھا۔ خیر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی حالت میں گھبرائے ہوئے گھر آئے تو سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا نے آپ کو بہت تسلی دی۔ اس کے بعد کچھ عرصہ وحی کا سلسلہ بند ہوگیا۔ وحی کی تکلیف اور بوجھ کے باوجود اس دوران آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایک عجیب طرح کی لذت بھی محسوس ہوئی تھی۔ اسی لذت کی وجہ سے آپ وحی کے منتظر بھی رہتے تھے۔ بعد ازاں ایک دن درج ذیل واقعہ پیش آیا : سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وحی بند رہنے کا تذکرہ فرما رہے تھے۔ فرمایا : ایک دفعہ چلتے چلتے میں نے آسمان سے ایک آواز سنی تو آسمان کی طرف اسی فرشتے کو دیکھا جو حرا میں میرے پاس آیا تھا۔ وہ آسمان اور زمین کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا تھا۔ اسے دیکھ کر میں اتنا ڈرا کہ ڈر کے مارے زمین پر گر پڑا۔ پھر اپنے گھر آیا تو گھر والوں سے کہا : ’’مجھے کمبل اڑھا دو۔ مجھے کمبل اڑھا دو‘‘ چنانچہ انہوں نے مجھے کمبل اڑھا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔ ﴿یَایُّھَا الْمُدَّثِّرْ۔۔ فَاھْجُرْ﴾ تک۔ ابو سلمہ نے کہا رجز سے بت مراد ہیں۔ اس کے بعد وحی گرم ہوگئی، برابر لگاتار آنے لگی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر)