إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُكُمْ أَن تُؤَدُّوا الْأَمَانَاتِ إِلَىٰ أَهْلِهَا وَإِذَا حَكَمْتُم بَيْنَ النَّاسِ أَن تَحْكُمُوا بِالْعَدْلِ ۚ إِنَّ اللَّهَ نِعِمَّا يَعِظُكُم بِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ سَمِيعًا بَصِيرًا
بے شک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں (65) ان کے مالکوں تک پہنچا دو، اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو، تو انصاف کے ساتھ کرو، بے شک اللہ تمہیں اچھی بات کی نصیحت کرتا ہے، بے شک اللہ خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے
[٨٩] اس جملہ کے بہت سے مطلب ہو سکتے ہیں۔ مثلاً ایک یہ کہ جس کسی نے تمہارے پاس کوئی امانت رکھی ہو اسی کو اس کی امانت ادا کر دو۔ زید کی امانت بکر کے حوالے نہ کرو۔ امانت کا دوسرا مطلب ذمہ دارانہ مناصب ہیں۔ یعنی حکومت کے ذمہ دارانہ مناصب انہی کے حوالے کرو جو ان مناصب کے اہل ہوں۔ نااہل، بے ایمان بددیانت اور راشی قسم کے لوگوں کے حوالے نہ کرو۔ اس لحاظ سے یہ مسلمانوں سے اجتماعی خطاب ہے کیونکہ بدکار لوگوں کی حکومت سے ساری قوم کی اخلاقی حالت تباہ و برباد ہوجاتی ہے۔ امانت کا تیسرا مطلب حقوق بھی ہیں یعنی تمہارے ذمہ جو حقوق ہیں خواہ اللہ کے ہوں یا بندوں کے، سب کے حقوق بجا لاؤ۔ کسی حکومت کے استحکام کی یہ پہلی بنیاد ہے اور انہی حقوق کی عدم ادائیگی سے فساد رونما ہوتا ہے۔ [٩٠] حکومت کے استحکام کی دوسری بنیاد عدل و انصاف ہے لہٰذا کسی قوم سے دشمنی تمہارے عدل و انصاف پر اثر انداز نہ ہونی چاہیے۔ جیسا کہ یہود نے صرف اسلام دشمنی کی بنا پر مشرکوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ تم دینی لحاظ سے مسلمانوں سے بہتر ہو۔ حالانکہ مسلمانوں کی پاکیزہ سیرت اور مشرکوں کے کردار میں فرق اتنا واضح تھا جو دشمنوں کو بھی نظر آ رہا تھا اور خود یہود بھی اس حقیقت حال سے پوری طرح آگاہ تھے۔ انصاف سے فیصلہ کرنا اور انصاف کی بات کہنا بہت بلند درجہ کا عمل ہے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہوتا ہے : ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’انصاف کرنے والے اللہ کے نزدیک ہوں گے، رحمٰن عزوجل کے دائیں نور کے منبروں میں ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ جو اپنے فیصلہ کے وقت اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف سے فیصلہ کرتے ہیں۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب فضیلۃ الامیر العادل) ٢۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سات قسم کے آدمیوں کو اپنے سایہ میں رکھے گا اور یہ ایسا دن ہوگا جب اور کسی جگہ کوئی سایہ نہ ہوگا۔ اس میں سرفہرست آپ نے امام عادل یعنی انصاف کرنے والے حاکم کا ذکر فرمایا۔ دوسرے وہ نوجوان جس نے جوانی میں خوشدلی سے اللہ کی عبادت کی۔ تیسرے وہ شخص جس کا دل مسجد میں ہی اٹکا رہتا ہے۔ چوتھے وہ دو شخص جنہوں نے اللہ کی خاطر دوستی کی، اسی کی خاطر اکٹھے رہے اور آخر موت نے جدا کیا۔ پانچویں وہ شخص جسے کسی مالدار اور حسن و جمال والی عورت نے بدکاری کے لیے بلایا تو اس نے کہہ دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ چھٹے وہ شخص جس نے اللہ کی راہ میں یوں چھپا کر صدقہ دیا کہ داہنے ہاتھ نے جو کچھ دیا، بائیں کو اس کی خبر تک نہ ہوئی۔ ساتویں وہ شخص جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھیں بہ نکلیں۔ (بخاری، کتاب الاذان، باب من جلس فی المسجد ینتظر الصلوۃ۔۔)