ثُمَّ إِنِّي أَعْلَنتُ لَهُمْ وَأَسْرَرْتُ لَهُمْ إِسْرَارًا
پھر میں نے ان کے سامنے علی الاعلان اپنی دعوت پیش کی، اور ان کو پوشیدہ طور پر بھی سمجھایا
[٥] استغفار سے حاصل ہونے والے دنیوی فوائد :۔ اور جہاں تک میرے سمجھانے کا تعلق ہے تو میں ان کی مجلسوں میں بھی جاتا ہوں اور ان کے گھروں میں بھی۔ ان سے نجی محفلیں بھی کرتا ہوں۔ انہیں برملا بھی سمجھاتا ہوں اور خیرخواہی کے لہجہ میں انفرادی ملاقاتوں میں انہیں یہ بات سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں کہ اس وقت جو تم پر قحط مسلط ہے، بارشیں نہیں ہو رہیں، اگر تم اللہ کی طرف رجوع کرلو۔ اور اس سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو تو تم پر سے یہ قحط دور ہوجائے گا۔ اللہ کی مہربانی سے خوب بارشیں ہوں گی۔ اور تمہارے اموال اور اولاد میں اللہ تعالیٰ خوب برکت عطا فرمائے گا۔ واضح رہے کہ استغفار کے دنیا میں حاصل ہونے والے ایسے فوائد کا ذکر قرآن میں اور بھی کئی مقامات پر آیا ہے۔ مثلاً سورۃ مائدہ میں فرمایا : اور اگر اہل کتاب تورات، انجیل اور جو کچھ ان کے پروردگار کی طرف سے ان پر نازل کیا گیا تھا، پر عمل پیرا رہتے تو ان کے اوپر سے بھی رزق برستا اور نیچے سے بھی نکلتا (٥: ٦٦) اور سورۃ اعراف میں فرمایا :’’اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے‘‘ (٧: ٩٦) ان آیات سے واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ استغفار کا دنیا میں بھی یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس سے تنگدستی اور کئی دوسری پریشانیاں دور ہوجاتی ہیں۔ چنانچہ حسن بصری رحمہ اللہ سے ایک شخص نے قحط کا شکوہ کیا، دوسرے نے محتاجی کا اور تیسرے نے اولاد نہ ہونے کا تو آپ نے ان تینوں کو استغفار کا حکم دیا۔ کسی نے کہا کہ ان کے شکوے تو الگ الگ ہیں لیکن آپ ہر ایک کو استغفار کا ہی حکم دے رہے ہیں؟ اس کے جواب میں آپ نے یہی آیات ( نمبر ١٠ تا ١٢) پڑھ کر اسے مطمئن کردیا۔ بلکہ بعض علماء تو کہتے ہیں کہ ہر مقصد کے حصول کے لئے اللہ کے حضور استغفار کرنا چاہئے۔ چنانچہ ایک دفعہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بارش کی دعا کرنے کے لئے باہر نکلے اور صرف استغفار پر اکتفا فرمایا۔ کسی نے عرض کیا : امیر المومنین! آپ نے بارش کے لئے دعا تو کی ہی نہیں؟ فرمایا : میں نے آسمان کے ان دروازوں کو کھٹکھٹا دیا ہے جہاں سے بارش نازل ہوتی ہے پھر آپ نے سورۃ نوح کی یہی آیات لوگوں کو پڑھ کر سنا دیں۔