يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا
اے ایمان والو ! جب تم نشہ کی حالت (50) میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ، یہاں تک کہ تم (نماز میں) جو کہتے ہو اسے سمجھنے لگو، اور نہ حالت جنابت (51) میں (نماز پڑھو) یہاں تک کہ غسل کرلو، سوائے ان کے جو (مسجد سے) گذرنا چاہتے ہوں، اور اگر تم بیمار (52) ہو، یا حالت سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت کر کے آئے، یا تم نے بیویوں کے ساتھ مباشرت کی ہو، اور پانی نہ ملے، تو پاک مٹی سے تیمم کرلو، (وہ اس طرح کہ) اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کرلو، بے شک اللہ بڑا معاف کرنے والا اور مغفرت کرنے والا ہے
[٧٥] حرمت شراب کے احکام میں تدریج :۔ یہ آیت حرمت شراب کے تدریجی احکام کی دوسری کڑی ہے۔ اس سلسلہ میں پہلی آیت جو نازل ہوئی وہ سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ٢١٩ ہے جس میں فقط یہ بتایا گیا کہ شراب اور جوئے میں گو کچھ فائدے بھی ہیں تاہم ان کے نقصانات ان کے فوائد سے زیادہ ہیں۔ چند محتاط صحابہ کرام نے اسی وقت سے شراب چھوڑ دی تھی۔ پھر اس کے بعد یہ آیت نازل ہوئی۔ جس کے شان نزول کے متعلق درج ذیل حدیث ملاحظہ فرمائیے : سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے روایت ہے کہ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ بن عوف نے ہمارے لیے کھانا بنایا، دعوت دی اور ہمیں شراب پلائی۔ شراب نے ہمیں مدہوش کردیا، اتنے میں نماز کا وقت آ گیا۔ انہوں نے مجھے امام بنایا۔ میں نے پڑھا﴿ قُلْ یَایُّھَا الْکٰفِرُوْنَ لاَ اَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْنَ وَنَحْنُ نَعْبُدُ مَا تَعْبُدُوْن﴾ تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔ (ترمذی۔ ابو اب التفسیر) پھر اس کے بعد سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٩٠ تا ٩١ کی رو سے شراب کو ہمیشہ کے لیے حرام قرار دے دیا گیا۔ اس میں لفظ خمر (شراب) کے بجائے سکر (نشہ) کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ جس سے از خود یہ معلوم ہوگیا کہ شراب کی طرح ہر نشہ آور چیز حرام ہوتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی تصریح بھی موجود ہے۔ دوسرے یہ معلوم ہوا کہ چونکہ نشہ کی حالت بھی نیند کی غشی کی طرح ایک طرح کی غشی ہی ہوتی ہے لہٰذا انسان کو یہ معلوم رہنا مشکل ہے کہ آیا اس کا وضو بھی بحال ہے یا ٹوٹ چکا ہے۔ غالباً اسی نسبت سے اس آیت میں آگے طہارت کے احکام بیان ہو رہے ہیں۔ [٧٦] تیمم اور غسل جنابت :۔ نماز کے لیے طہارت فرض ہے لہٰذا عام حالت میں تو وضو کرنے سے یہ طہارت حاصل ہوجاتی ہے لیکن جنبی آدمی کے لیے نماز سے پہلے غسل فرض ہے۔ خواہ یہ جنابت احتلام کی وجہ سے ہو یا صحبت کی وجہ سے۔ اس آیت میں بتایا یہ جا رہا ہے کہ اگر کسی کو وضو کے لیے یا جنبی کو غسل کے لیے پانی میسر نہ آئے یا کوئی ایسا بیمار ہو جسے پانی کے استعمال سے نقصان پہنچتا ہو تو ان صورتوں میں وہ تیمم کرسکتا ہے۔ اس آیت کے شان نزول، طریق تیمم اور طریق غسل سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ میں (غزوہ بنی مصطلق میں) اپنی بہن اسماء کا ہار عاریتاً لے گئی ہار کہیں گرگیا ۔ آپ نے کئی آدمیوں کو ہار ڈھونڈنے کے لیے بھیجا۔ نماز کا وقت آ گیا۔ وہاں پانی نہ تھا اور لوگ باوضو نہ تھے اس وقت اللہ تعالیٰ نے تیمم کی آیت نازل فرمائی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا عمران رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی سفر میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جگہ پڑاؤ کیا۔ وضو کے لیے پانی منگایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور نماز کے لیے اذان کہی گئی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز سے سلام پھیرا تو ایک شخص کو علیحدہ بیٹھے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پوچھا ’’اے فلاں! تجھے کس چیز نے لوگوں کے ساتھ نماز ادا کرنے سے روکے رکھا ؟‘‘ وہ کہنے لگا ’’میں جنبی ہوگیا ہوں اور پانی موجود نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا ’’تمہیں مٹی سے تیمم کرلینا چاہیے تھا وہ تجھے کافی ہوجاتا۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مٹی سے تیمم کرنے کا حکم دیا۔‘‘ (بخاری، کتاب التیمم، باب الصعید الطیب وضوء المسلم۔ نیز کتاب بدء الخلق۔ باب علامات النبوۃ فی الاسلام) نیز دیکھئے سورۃ مائدہ (٥) کی آیت نمبر ٦ کا حاشیہ۔ ٣۔ تیمم کا طریقہ :۔ سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کسی مہم پر بھیجا (اس دوران) میں جنبی ہوگیا، مجھے پانی نہ ملا تو میں نے مٹی میں اس طرح لوٹ لگائی جس طرح چوپایہ لوٹ لگاتا ہے۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تمہیں اس طرح کرنا کافی تھا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دونوں ہتھیلیوں کو ایک بار مٹی پر مارا پھر انہیں اپنے منہ کے قریب کیا اور ان پر پھونک ماری (زائد مٹی اڑا دی) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بائیں ہتھیلی سے داہنے ہاتھ کی پشت پر اور داہنی ہتھیلی سے بائیں ہاتھ کی پشت پر مسح کیا۔ پھر دونوں ہتھیلیوں سے اپنے چہرے کا مسح کیا۔‘‘ (بخاری، کتاب التیمم۔ باب التیمم ضربہ۔ باب التیمم للوجہ والکفین۔۔ مسلم۔ فی باب التیمم) ٤۔غسل کا طریقہ:۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم غسل جنابت کرنا چاہتے تو (برتن میں ہاتھ ڈالنے سے) پہلے اپنے دونوں ہاتھ دھوتے پھر نماز کے وضو کی طرح وضو کرتے پھر انگلیاں پانی میں ڈال کر بالوں کی جڑوں کا خلال کرتے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں تین چلو لے کر اپنے سر پر ڈالتے پھر اپنے سارے بدن پر پانی بہاتے۔ (بخاری، کتاب الغسل۔ باب الوضو قبل الغسل) ٥۔ سعید بن عبدالرحمن بن ابزی اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا ’’اگر مجھے جنابت لاحق ہوجائے اور پانی نہ ملے تو کیا کروں؟‘‘ عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا، کیا آپ کو یاد نہیں جب ہم دونوں ایک سفر میں جنبی ہوگئے تھے اور آپ نے نماز نہ پڑھی اور میں مٹی میں لوٹا اور نماز پڑھ لی۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’تجھے اتنا ہی کافی تھا، پھر آپ نے اپنی دونوں ہتھیلیاں زمین پر ماریں اور ان کو پھونک دیا۔ پھر منہ اور دونوں پہنچوں پر مسح کیا۔‘‘ (بخاری کتاب التیمم، باب ھل ینفخ فی یدیہ) ٦۔ سیدنا عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما ایک ٹھنڈی رات میں جنبی ہوگئے تو تیمم کرلیا اور یہ آیت پڑھی : ﴿وَلاَ تَقْتُلُوْا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا﴾ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ذکر کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کچھ ملامت نہیں کی۔ (بخاری، کتاب التیمم باب اذا خاف الجنب علی نفسہ المرض والموت) اس آیت سے معلوم ہوا کہ تیمم کی مندرجہ ذیل چار صورتوں میں رخصت ہے : ١۔ انسان سفر میں ہو اور اسے پانی نہ مل رہا ہو۔ سفر کی قید محض اس لیے ہے کہ عموماً سفر میں پانی ملنا مشکل ہوجاتا ہے۔ ورنہ اگر حضر میں بھی پانی نہ مل رہا ہو تو بھی تیمم کی رخصت ہے۔ ٢۔ وضو کرنے والا بیمار ہو تو وضو کرنے سے یا نہانے سے اسے اپنی جان کا یہ مرض بڑھنے کا خطرہ ہو۔ ٣۔ حدث اصغر یعنی پاخانہ، پیشاب اور ہوا یا مذی خارج ہونے پر وضو کرنا واجب ہے اگر وضو کے لیے پانی نہ ملے تو تیمم کی رخصت ہے۔ ٤۔ حدث اکبر یعنی احتلام یا جماع کے بعد غسل کرنا واجب ہے لیکن اگر پانی نہیں ملتا تو تیمم کی رخصت ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت میں 'الصلٰوۃ' سے مراد نماز کے علاوہ مسجد بھی لی ہے۔ اور 'عابری سبیل' کا مفہوم یہ بتایا ہے کہ اگر جنبی شخص کو مسجد میں سے گزرنے کے بغیر کوئی راستہ ہی نہ ہو تو وہ مسجد سے گزر سکتا ہے۔ مگر نماز کے لیے یا کسی دوسرے کام کے لیے مسجد میں رک نہیں سکتا۔ اسی طرح اگر کوئی شخص مسجد میں سویا ہوا تھا اور اسے احتلام ہوگیا تو بیدار ہونے پر وہ مسجد میں رکے نہیں بلکہ وہاں سے نکل جائے۔ واضح رہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سفر میں جنبی ہوجانے پر تیمم کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور یہ ان کی کچھ سیاسی مصلحت تھی کہ لوگ اس رعایت سے ناجائز فائدہ نہ اٹھائیں ورنہ وہ اس سنت کا انکار نہیں کرتے تھے۔ جیسا کہ اوپر درج شدہ حدیث نمبر ٥ سے واضح ہے۔ تاہم بہت سے صحابہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی اس مصلحت سے اتفاق نہیں کیا۔ اور حدیث نمبر ٦ سے تو واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ دین میں سختی کی بجائے نرمی ہے۔ سیدنا عمر و بن عاص رضی اللہ عنہ کے پاس سوائے شدید سردی کے اور کوئی عذر نہ تھا اور انہیں خطرہ تھا کہ اگر نہا لیا تو بیمار پڑجائیں گے۔ لہٰذا آپ نے جنبی ہونے پر نہانے کی بجائے تیمم کرلیا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نکیر نہیں فرمائی۔ دین میں تنگی نہیں :۔ اس سلسلہ میں وہ واقعہ بھی مدنظر رکھنا چاہیے جسے ابو داؤد نے تیمم کے باب میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم ایک سفر پر نکلے۔ اثنائے سفر ہمارے ایک ساتھی کو سر پر ایک پتھر لگا جس سے اس کا سر زخمی ہوگیا۔ اسی دوران اسے احتلام ہوگیا تو وہ اپنے ساتھیوں سے پوچھنے لگا کیا تمہارے خیال میں تیمم کی رخصت سے فائدہ اٹھا سکتا ہوں؟ انہوں نے جواب دیا کہ تم کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہو جبکہ پانی موجود ہے۔ چنانچہ اس نے غسل کیا جس سے اس کی موت واقع ہوگئی۔ پھر جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں آئے تو آپ سے اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ انہیں غارت کرے ان لوگوں نے اسے مار ڈالا۔ جب انہیں یہ مسئلہ معلوم نہ تھا تو انہوں نے کیوں نہ پوچھ لیا ؟ جہالت کی درماندگی کا علاج تو پوچھ لینا ہی ہوتا ہے۔ اسے اتنا ہی کافی تھا کہ وہ اپنے زخم پر پٹی باندھ لیتا اور اس پر مسح کرلیتا اور باقی جسم کو دھو لیتا۔‘‘ اور وضو کے متعلق احادیث سورۃ مائدہ کی آیت نمبر ٦ کے تحت درج کی جائیں گی۔