الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ طِبَاقًا ۖ مَّا تَرَىٰ فِي خَلْقِ الرَّحْمَٰنِ مِن تَفَاوُتٍ ۖ فَارْجِعِ الْبَصَرَ هَلْ تَرَىٰ مِن فُطُورٍ
جس نے اوپر تلے سات آسمان بنائے (٢) ہیں، آپ رحمن کی تخلیق میں کوئی بے ضابطگی نہ دیکھئے گا، آپ نظر ڈال لیجیے، کیا آپ کو کوئی شگاف نظر آتاہے
[٦] سات آسمان اور ان کی کیفیت :۔ موجودہ ہیئت دانوں کے نظریہ کے مطابق آسمان کوئی چیز نہیں۔ فقط حد نگاہ کا نام ہے اور یہ جو نیلگوں چھت ہمارے سروں پر سایہ کئے ہوئے اور جھکی ہوئی نظر آتی ہے۔ تو اس کی یہ رنگت محض فضا کا رنگ ہے جو ہمارے چاروں طرف محیط ہے۔ جبکہ کتاب و سنت سے ہمیں یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ آسمان ٹھوس حقیقت کا نام ہے۔ ان کی تعداد سات ہے اور ان میں دروازے بھی ہیں۔ پھر یہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں۔ ایک کے اوپر دوسرا، دوسرے کے اوپر تیسرا علی ہذا القیاس۔ یہ تہ بہ تہ بھی ہیں اور پوری مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ جیسے طبقات الارض یا پیاز کے چھلکے ایک دوسرے کے اوپر تہ بہ تہ ہوتے ہیں اور مطابقت بھی رکھتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ طبقات الارض یا پیاز کے چھلکوں کے درمیان فاصلہ نہیں ہوتا جبکہ ہر آسمان سے دوسرے آسمان کے درمیان طول طویل فاصلہ بھی ہے۔ ایک آسمان تو وہ ہے جس پر ہم کھلی آنکھ سے بغیر دوربین کے ہر روز رات کو ستارے جگمگاتے دیکھتے ہیں۔ یہی آسمان ہم سے قریب ہے۔ یہ پہلا آسمان ہے اور اسے ہی قرآن میں دنیا کہا گیا ہے۔ اس کے آگے وہ آسمان ہے جس کے سیارے دوربین کی مدد سے ملاحظہ کیے جاتے ہیں۔ اور اس کے آگے پانچ آسمان ایسے ہیں جن تک دوربینوں کے ذریعہ سے بھی انسان کی رسائی نہیں ہوسکتی۔ اور ہیئت دانوں کے عجز کا یہ حال ہے جوں جوں وہ جدید قسم کی اور طاقتور دوربینیں ایجاد کر رہے ہیں تاکہ اس کائنات کی پنہائی اور وسعت کا کچھ اندازہ کرسکیں، کائنات اسی قدر مزید وسیع نظر آنے لگتی ہے۔ کائنات میں بھی وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے۔ اکثر سیاروں کے درمیانی فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔ یہ صورت حال دیکھ کر ہیئت دان ورطہ حیرت میں گم ہوجاتے ہیں۔ دراصل آسمانوں یا پوری کائنات کا احاطہ کرنا انسان کے بس کا روگ ہی نہیں۔ ان آسمانوں تک اگر موجودہ دنیا میں سے کسی کی رسائی ہوئی تو وہ فقط رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی قدرت کاملہ کی وجہ سے ہوئی تھی۔ [٧] تفاوت کا لغوی معنی :۔ تفاوت۔ فات بمعنی کسی چیز کا انسان کی دسترس سے اتنا دور ہوجانا کہ اس کا حاصل کرلینا اس کے لئے دشوار ہو اور تفاوت بمعنی دو چیزوں کے اوصاف اس طرح مختلف ہونا کہ ان میں سے ہر ایک کا وصف دوسری چیز کے وصف کو فوت کر رہا ہو۔ یعنی دو چیزوں کا آپس میں بے ربط، بے جوڑ ہونا، آپس میں لگا نہ کھانا اور ان میں عدم تناسب ہونا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ نے اس کائنات میں جو چیز بھی پیدا کی ہے کسی کا مقصد دوسرے سے نہ ٹکراتا ہے اور نہ بے جوڑ اور بے ربط ہے۔ کائنات کا مربوط اور منظم نظام :۔ بلکہ ہر چیز اپنے مقصد میں دوسری چیزوں سے پوری طرح ہم آہنگ ہے۔ تعاون کر رہی ہے اور مربوط و منظم ہے۔ اگر یہ صورت نہ ہوتی تو اس کائنات کا نظام چل ہی نہ سکتا تھا۔ جاندار مخلوق کا اس زمین پر زندہ رہنا تو دور کی بات ہے۔ اسی ہم آہنگی اور عدم تفاوت سے لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اس کائنات کا خالق ایک ہی ہوسکتا ہے۔ پھر اس میں تصرف بھی صرف اسی اکیلے کا چل رہا ہے اور ایسی ذات کا علیم و حکیم ہونا بھی انتہائی ضروری ہے۔