ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا لِّلَّذِينَ كَفَرُوا امْرَأَتَ نُوحٍ وَامْرَأَتَ لُوطٍ ۖ كَانَتَا تَحْتَ عَبْدَيْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَيْنِ فَخَانَتَاهُمَا فَلَمْ يُغْنِيَا عَنْهُمَا مِنَ اللَّهِ شَيْئًا وَقِيلَ ادْخُلَا النَّارَ مَعَ الدَّاخِلِينَ
اللہ نے کافروں کے لئے مثال (٩) دی ہے نوح کی بیوی کی اور لوط کی بیوی کی، دونوں ہمارے بندوں میں سے دو نیک بندوں کے نکاح میں تھیں، ان دونوں (عورتوں) نے ان دونوں (نیک بندوں) کے ساتھ خیانت کی، تو وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہ آسکے، اور ان سے کہا جائے گا کہ تم دونوں آگ میں داخل ہونے والوں کے ساتھ داخل ہوجاؤ
[٢١] یہ خیانت نہ مال کی خیانت تھی اور نہ عصمت کی کیونکہ حدیث میں یہ صراحت موجود ہے کہ کسی نبی کی کوئی بیوی کبھی بدکاری کی مرتکب نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ ایمان اور اس کے تقاضوں کی خیانت تھی۔ نبیوں کی راہ اور تھی اور ان بیویوں کی راہ دوسری تھی۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی کافر تھی اور اپنے خاوند یعنی سیدنا نوح کو دیوانہ سمجھتی اور کہتی تھی۔ سیدنا لوط کی بیوی کی بھی ساری ہمدردیاں اپنے خاوند کے بجائے کافروں کے ساتھ تھیں۔ کیونکہ وہ انہی کی قوم سے تھی۔ جب کوئی مہمان گھر میں آتا تو وہ اپنے ہمسایوں کو مخبری کردیتی تھی۔ [٢٢] یعنی نہ تو ان عورتوں کو پیغمبروں کی بیوی ہونا یا پیغمبروں کی صحبت میں رہنا کچھ فائدہ دے سکا۔ اور نہ ہی پیغمبر انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکے۔ سیدنا نوح کی بیوی بھی غرق ہونے والوں کے ساتھ ڈوب کر مرگئی اور سیدنا لوط کی بیوی بھی قوم کے ساتھ عذاب میں مبتلا ہوئی۔ یہ تو ان کا دنیا میں انجام ہوا۔ آخرت میں بھی یہ پیغمبر اپنی بیویوں کو اللہ کے عذاب سے بچا نہیں سکیں گے۔ اس سے معلوم ہوا کہ اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر صحیح ایمان نہ ہو تو قریبی سے قریبی رشتے بھی نہ دنیا میں کام آسکتے ہیں اور نہ آخرت میں۔ نبوت زادگی یا سید زادگی کوئی ایسا شرف نہیں جس پر تکیہ یا ناز کیا جاسکے۔ اور یہ مرض اہل کتاب میں عام تھا اور مسلمانوں میں بھی موجود ہے۔