اللَّهُ الَّذِي خَلَقَ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَمِنَ الْأَرْضِ مِثْلَهُنَّ يَتَنَزَّلُ الْأَمْرُ بَيْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ وَأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَاطَ بِكُلِّ شَيْءٍ عِلْمًا
وہ اللہ ہے جس نے سات آسمان پیدا (٨) کئے ہیں، اور انہیں کی مانند زمین۔ ان (آسمانوں اور زمینوں) کے درمیان اللہ کا حکم اتر تا رہتا ہے، تاکہ تم جان لو کہ اللہ ہر چیز پر قادر ہے، اور یہ کہ بے شک اللہ اپنے علم کے ذریعہ ہر چیز کو گھیرے ہوئے ہے
[٢٧] سات زمینوں کے مختلف مفہوم :۔ اس جملہ کے کئی مفہوم ہوسکتے ہیں۔ لغوی مفہوم یہ ہے کہ سماء اور ارض دونوں اسمائے نسبیہ سے ہیں۔ سماء یعنی بلندی ہے اور ارض بمعنی پستی۔ اس لحاظ سے ہم ہر بلندی کے مقابلہ میں پستی کو ارض کہہ سکتے ہیں اور ہر پستی کے مقابلہ میں بلندی کو سماء کہہ سکتے ہیں۔ گویا ہماری زمین پہلے آسمان کے مقابلہ ارض ہے۔ اور پہلا آسمان دوسرے آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ علیٰ ہذا القیاس چھٹا آسمان ساتویں آسمان کے مقابلہ میں ارض ہے۔ اس طرح سات آسمانوں کی طرح زمینیں بھی سات بن جاتی ہیں۔ دوسرا مفہوم یہ ہے کہ اس سے ہماری زمین کے ہی سات طبقات یا سات پرت مراد ہوں۔ جنہیں طبقات الارض کہا جاتا ہے۔ اور ان میں سے ہر طبقہ ارض ہے یا اپنے سے اوپر والے طبقہ کے مقابلہ میں ارض ہے اور اس مفہوم کی تائید اس حدیث سے بھی ہوجاتی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ :’’جو شخص کسی دوسرے کی تھوڑی سی بھی زمین ناحق لے لے تو وہ قیامت کے دن سات زمینوں تک دھنستا چلا جائے گا‘‘ (بخاری۔ کتاب المظالم۔ باب اثم من ظلم شیأا من الارض) اور تیسرا مفہوم یہ ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ ہماری ہی زمین جیسی ہی چھ اور زمینیں اس کائنات میں موجود ہوں اور وہاں کسی جاندار مخلوق کی آبادی بھی ہو۔ انسان آج تک کائنات کی وسعت کا اندازہ نہیں کرسکا اور نہ آئندہ کبھی کرسکے گا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان جس قدر جدید اور طاقتور قسم کی دوربینیں ایجاد کر رہا ہے اور رصدگاہیں تیار کر رہا ہے۔ اسے کائنات کے نئے سے نئے گوشے نظر آنے لگے ہیں اور وہ یہ سمجھنے لگا کہ کائنات میں ہر آن وسعت پیدا ہوتی جارہی ہے جیسا کہ ارشاد باری ہے: ﴿وَالسَّمَاءَ بَنَیْنٰہَا بِاَیْیدٍ وَّاِنَّا لَمُوْسِعُوْنَ﴾ یعنی ہم نے آسمان (یہاں آسمان سے مراد فضائے بسیط ہے) کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور ہم اس میں ہر آن توسیع کر رہے ہیں اور اس مفہوم کی تائید میں چند احادیث مل جاتی ہیں۔ اگرچہ وہ ضعیف قسم کی ہیں۔ [٢٨] یعنی عالم کے انتظام و تدبیر کے لئے اللہ کے احکام تکوینیہ اور شرعیہ ان آسمانوں اور زمینوں میں نازل ہوتے رہتے ہیں۔