رَّسُولًا يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِ اللَّهِ مُبَيِّنَاتٍ لِّيُخْرِجَ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ ۚ وَمَن يُؤْمِن بِاللَّهِ وَيَعْمَلْ صَالِحًا يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۖ قَدْ أَحْسَنَ اللَّهُ لَهُ رِزْقًا
ایک رسول بھیجا ہے جو تمہارے سامنے اللہ کی کھلی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں، تاکہ وہ ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور انہوں نے عمل صالح کیا، ظلمتوں سے نکال کر روشنی تک پہنچا دیں، اور جو اللہ پر ایمان لائے گا اور عمل صالح کرے گا وہ اسے ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی، ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ نے انہیں اچھی روزی دی ہے
[٢٥] یعنی صرف قرآن ہی نازل نہیں کیا بلکہ ایک رسول یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مبعوث فرمایا جو اس کی واضح آیات پڑھ کر بھی سناتا ہے پھر اس کے احکام و ارشادات پر عمل کرنے کا طریقہ بھی سکھاتا ہے۔ [٢٦] شرعی عائلی قوانین کی خوبیاں :۔ تاریکیوں سے مراد جہالت کی تاریکیاں ہیں۔ اور یہ تاریکیاں ایک نہیں بلکہ لاتعداد ہوتی ہیں۔ انسان اپنے مسائل کے حل کے لیے جتنے بھی قوانین بناتا ہے وہ ناقص ہی ہوتے ہیں۔ کیونکہ اس کی محدود عقلی فکر معاشرہ کے جملہ پہلوؤں کا احاطہ کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اسی لیے ان قوانین میں آئے دن ترمیم و تنسیخ کی ضرورت پیش آتی رہتی ہے۔ اس کے مقابلہ میں روشنی سے مراد علم وحی کی روشنی ہے۔ جو ایک ہی رہی ہے اور ناقابل ترمیم و تنسیخ اور انسان کی دست برد سے پاک ہوتی ہے۔ اس مقام پر اس ارشاد کی پوری اہمیت اس وقت سمجھ میں آتی ہے جب ہم قدیم و جدید دنیا کے عائلی قوانین پر غور کرتے ہیں اس تقابلی مطالعہ سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ بار بار کی تبدیلیوں اور نت نئی قانون سازیوں کے باوجود معاشرے کے لئے آج تک کسی قوم کو ایسا معقول ' فطری اور مفید قانون میسر نہیں آسکا ہے جیسا کہ اس کتاب اور اس کے لانے والے رسول نے ڈیڑھ ہزار سال پہلے ہم کو دیا تھا۔