وَلِكُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِيَ مِمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ ۚ وَالَّذِينَ عَقَدَتْ أَيْمَانُكُمْ فَآتُوهُمْ نَصِيبَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدًا
اور ہم نے ہر شخص کے ورثہ (41) بنائے ہیں۔ اس (مال کی تقسیم) کے لیے جو والدین اور قریبی رشتہ دار چھوڑ کر مریں اور جن کے ساتھ تمہارا معاہدہ ہے انہیں ان کا حصہ دو، بے شک اللہ ہر چیز پر گواہ ہے
[٥٦] مواخات اور میراث :۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ موالی سے مراد۔۔ وارث ہیں اور﴿وَالَّذِیْنَ عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾ کا مطلب یہ ہے کہ مہاجرین اسلام ابتداًء جب مدینہ آئے تو مہاجر اپنے انصاری بھائی کا وارث ہوتا اور انصاری کے رشتہ داروں کو ترکہ نہ ملتا تھا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مواخات کرا دی تھی۔ پھر (جب مسلمانوں کی معیشت سنبھل گئی تو) یہ آیت اتری ﴿وَلِکُلٍّ جَعَلْنَا مَوَالِیَ﴾ تو اب ایسے بھائیوں کو ترکہ ملنا موقوف ہوگیا اور اب ﴿عَقَدَتْ اَیْمَانُکُمْ﴾سے مراد وہ لوگ ہیں جن سے قسم کھا کر دوستی، مدد اور خیر خواہی کا عہد کیا جائے ان کے لیے ترکہ نہ رہا البتہ وصیت کا حکم باقی ہے۔ (بخاری، کتاب التفسیر نیز کتاب الکفالہ باب قول اللہ والذین عقدت ایمانکم)