أَسْكِنُوهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنتُم مِّن وُجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوهُنَّ لِتُضَيِّقُوا عَلَيْهِنَّ ۚ وَإِن كُنَّ أُولَاتِ حَمْلٍ فَأَنفِقُوا عَلَيْهِنَّ حَتَّىٰ يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ ۚ فَإِنْ أَرْضَعْنَ لَكُمْ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۖ وَأْتَمِرُوا بَيْنَكُم بِمَعْرُوفٍ ۖ وَإِن تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَهُ أُخْرَىٰ
مسلمانو ! تم مطلقہ عورتوں کو وہیں ٹھہراؤ(٤) جہاں تم اپنی مقدور کے مطابق خود ٹھہرتے ہو، اور تم انہیں تکلیف نہ دو تاکہ ان کا جینا دو بھر کر دو، اور اگر وہ حاملہ ہوں تو ان کا خرچ دو یہاں تک کہ وہ بچے جن دیں، پس اگر وہ تمہارے بچوں کو دودھ پلائیں تو انہیں ان کی اجرت دو، اور (دود ھ پلانے کے بارے میں) تم آپس میں نیک نیتی کے ساتھ مشورہ کرلو، اور اگر معاملہ طے کرنے میں تمہارے درمیان مشکل پیش آئے، تو اس کے بچہ کو کوئی دوسری عورت دودھ پلائے گی
[١٨] عدت کے دوران رہائش اور نان ونقہ خاوند کے ذمہ ہے :۔ مطلقہ عورت کی عدت کے دوران اس کی رہائش اور اس کی خوراک و پوشاک کا سارا خرچ طلاق دینے والے مرد کے ذمہ ہے۔ اس قطعی اصل سے استثناء کی ایک مثال دور نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ملتی ہے۔ وہ قصہ یہ تھا کہ فاطمہ بنت قیس کے خاوند عمرو بن حفص نے جب اپنی بیوی کو تیسری طلاق دی تو اس وقت وہ خود شام کے علاقے میں تھے۔ فاطمہ بنت قیس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور انہیں یہ معاملہ بتایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حکم دیا کہ وہ اپنی عدت ام شریک کے گھر میں گزارے، پھر فرمایا : یہ عورت (ام شریک) ایسی ہے جس کے ہاں میرے صحابہ اکثر آتے جاتے ہیں لہٰذا تم ابن ام مکتوم کے ہاں عدت گزارو۔ کیونکہ وہ اندھا آدمی ہے تو اس کے ہاں کپڑے تک اتار سکتی ہے اور ایک روایت میں ہے کہ تو اپنے چچا ابن ام مکتوم کے ہاں چلی جا۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ’’فاطمہ بنت قیس اللہ سے نہیں ڈرتی جو کہتی ہے کہ جس عورت پر طلاق بائن پڑے اس کے لئے نہ رہائش ہے اور نہ نفقہ (خوراک و پوشاک)‘‘ (بخاری۔ کتاب الطلاق۔ باب قصۃ فاطمۃ بنت قیس) فاطمہ بنت قیس کا استثنائی قصہ :۔ فاطمہ بنت قیس کا قصہ تقریباً سب کتب احادیث میں مذکور ہے۔ لیکن ان کی عدت گزارنے اور نفقہ کا قصہ بالکل اضطراری نوعیت کا تھا۔ یہ ایک درشت مزاج اور زبان دراز خاتون تھیں جب طلاق مغلظہ واقع ہوئی اس وقت ان کا خاوند شام میں تھا۔ تیسری طلاق کے بعد چونکہ خاوند کا حق رجوع ختم ہوجاتا ہے اور وہ اس کی بیوی نہیں رہتی۔ لہٰذا یہ مسئلہ بذات خود مختلف فیہ ہے۔ کہ طلاق مغلظہ کے بعد سکنیٰ اور نفقہ واجب بھی ہے یا نہیں۔ تاہم جمہور علماء کی یہی رائے ہے کہ پوری عدت کے دوران سکنیٰ اور نان و نفقہ واجب ہے۔ فاطمہ بنت قیس کا گھر جنگل میں تھا جہاں آس پاس مکانات نہیں تھے لہٰذا وہاں مال اور ناموس دونوں باتوں کا خطرہ تھا علاوہ ازیں اس کے خاوند نے جو کچھ سَرَاحًا جَمِیْلاً کے طور پر بھیجا تھا اسے فاطمہ بنت قیس نے حقیر سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا۔ یہ تھے وہ خصوصی حالات جن کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ کے حق میں یہ فیصلہ دیا تھا اور یہ انہی کے لئے خاص تھا۔ اسی لئے سیدنا عمر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور دوسرے صحابہ فاطمہ کے اس قول کو کہ : ’’طلاق بائن والی عورت کے لئے سکنیٰ اور نفقہ نہیں ہے‘‘ کا انکار کرتے اور اس کے ذاتی واقعہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصی اجازت سمجھتے تھے جو کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں۔ [١٩] یعنی واجبی خرچ نہ دے کر یا دوسرے طریقوں سے اس طرح تنگ نہ کر ڈالو کہ وہ از خود نکلنے اور تمہارا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوجائیں اور تم یہ سمجھنے لگو کہ جب وہ خود ہی چلی گئی ہے تو تم پر اس کا کچھ الزام نہیں۔ [٢٠] بیوہ کانان ونفقہ واجب نہیں :۔ حاملہ خواہ مطلقہ ہو یا بیوہ اس کی عدت تا وضع حمل ہے۔ خواہ یہ چند دن بعد ہی وضع حمل ہو یا چھ سات ماہ تک لمبی ہوجائے۔ اس دوران اگر مطلقہ ہے تو اس کے سکنیٰ اور نفقہ کا ذمہ دار اس کا خاوند ہوگا۔ اور اگر بیوہ ہے تو اس کا سکنیٰ تو مرد کے لواحقین کے ذمہ ہوگا اور وہ عدت اپنے خاوند کے گھر میں گزارے گی۔ لیکن نفقہ کی حقدار نہ رہے گی کیونکہ اب وہ وراثت کی حقدار بن گئی ہے وہ اپنے حصہ میں سے اپنی ذات پر خرچ کرے گی۔ یہ نہیں ہوگا کہ پہلے خاوند کے مشترکہ ورثہ سے اس کا نفقہ بھی اسے دیا جائے اور پھر وراثت کا حصہ بھی۔ [٢١] طلاق کے بعد بچہ کو دودھ پلانے سے متعلقہ مسائل :۔ اس آیت اور اگلی آیت سے مندرجہ ذیل باتیں مستفاد ہوتی ہیں: ١۔ عورت اپنے دودھ کی خود مالک ہے اور وہ طلاق دینے والے خاوند سے بھی اسی طرح اجرت لے سکتی ہے جس طرح دوسروں سے۔ ٢۔ قانونی طور پر بچہ باپ کا ہوتا ہے، ماں کا نہیں ہوگا۔ اگر بچہ ماں کا ہو تو اجرت لینے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ٣۔ اگر ماں بھی وہی اجرت مانگے جو دوسری عورتیں مانگتی ہیں تو ماں دودھ پلانے کی زیادہ حقدار ہے۔ ٤۔ اگر ماں کسی بیماری یا کمزوری کی وجہ سے دودھ پلانے سے انکار کر دے یا اجرت اتنی زیادہ مانگے جو اس کے خاوند کی استطاعت یا معروف رواج سے زیادہ ہو تو باپ کسی دوسری عورت سے بھی دودھ پلوانے کی خدمت لے سکتا ہے۔ ٥۔ طلاق کے بعد اگر فریقین میں شکررنجی باقی رہ گئی ہو تب بھی بچہ کی تربیت کے سلسلہ میں ماں اور باپ کو بچہ کی اور ایک دوسرے کی بھلائی ہی سوچنا چاہئے۔ باپ محض ماں کو ستانے، تنگ کرنے اور اس کی نظروں سے بچہ غائب رکھنے کی خاطر کسی دوسری عورت سے دودھ نہ پلائے یا ماں کو اس کا بہت کم معاوضہ دے یا سرے سے کچھ دینے پر آمادہ ہی نہ ہو۔ اور نہ ہی ماں اتنا خرچ طلب کرے یا ایسے حالات پیدا کردے کہ باپ کسی دوسری عورت سے دودھ پلانے پر مجبور ہوجائے۔ ٦۔ ہمارے ہاں یہ دستور بن چکا ہے کہ مطلقہ عورت اور طلاق دینے والا مرد بعد میں تازیست نہ ایک دوسرے کے سامنے ہوں اور نہ کلام کریں اور اسے غیرت کا مسئلہ بنا لیا گیا ہے۔ بلکہ بسا اوقات مرد اور عورت کے خاندان میں بغض اور عداوت چل جاتی ہے۔ شرعاً ان باتوں کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں بالخصوص ﴿وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ ﴾ کے الفاظ قابل توجہ ہیں۔ نیز جب سیدنا زید بن حارثہ نے سیدہ زینب کو طلاق دے دی تو اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ زینب کو اپنے لیے نکاح کا پیغام سیدنا زید کی زبانی ہی بھیجا تھا۔