سورة النسآء - آیت 32

وَلَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللَّهُ بِهِ بَعْضَكُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبُوا ۖ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا اكْتَسَبْنَ ۚ وَاسْأَلُوا اللَّهَ مِن فَضْلِهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اور اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض کے اوپر جو برتری دی ہے اس کی تمنا (40) نہ کرو، مردوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور عورتوں کو ان کی کمائی کا حصہ ملتا ہے، اور اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو، اللہ ہر چیز کو خوب جانتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٥٤] حسد کی بجائے اللہ کا فضل طلب کرنا چاہئے :۔ دنیا میں اللہ نے کسی کو کوئی خوبی دے رکھی ہے کسی کو کوئی دوسری۔ کوئی مالدار ہے کوئی غریب ہے۔ کوئی حسین ہے کوئی بدصورت ہے، کوئی تنومند اور صحت مند اور کوئی کمزور اور مستقل بیمار۔ کوئی سالم الاعضاء ہے تو کوئی پیدائشی اندھا یا گونگا یا بہرہ ہے۔ کوئی بڑا عقلمند اور ذہین ہے اور کوئی کند ذہن ہے۔ کسی میں قوت کار کی استعداد بہت زیادہ ہے کسی میں کم ہے، کوئی چست اور پھرتیلا ہے تو کوئی پیدائشی طور پر سست اور ڈھیلا ڈھالا ہے اور اسی اختلاف ہی سے اس جہان کی رنگینیاں قائم اور اس دنیا میں ایک دوسرے کے کام چلتے چلاتے رہتے ہیں۔ اب اگر اس قدرتی اختلاف میں سے کسی بھی چیز کا اختلاف مٹانے کی کوشش کی جائے گی تو وہ اختلاف تو دور نہ ہو سکے گا البتہ معاشرہ میں بگاڑ ضرور پیدا ہوجائے گا۔ اس لیے اگر اللہ نے کسی کو خوبی عطا کی ہے تو اس کے لیے حسد ہوس اور بغض نہ رکھنا چاہیے کیونکہ اس کے عوض اللہ نے تمہیں بھی کوئی نہ کوئی خوبی ضرور دی ہوگی۔ البتہ اپنے لیے اللہ کے فضل کی دعا کرسکتے ہو۔ اور اگر سچے دل سے دعا کرو گے اور اس کام کے لیے اسباب بھی اختیار کرو گے تو اللہ تعالیٰ یقینا اپنے بندوں پر بہت عنایات کرنے والا ہے۔ [٥٥] اجر وثواب میں مرد و عورت برابر ہیں :۔ مرد ہو یا عورت جس کی نیت میں خلوص زیادہ ہوگا تو اس کو اس کے مطابق اجر ملے گا اور اگر عورت ہمت اور قوت کار کی استعداد میں کم ہونے کے باوجود وہی نیکی کا کام سر انجام دیتی ہے جو مرد نے دیا ہے تو یقینا عورت کو اس کا اجر زیادہ ملنا چاہیے۔ گویا ثواب کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں۔ البتہ دوسرے عوامل ثواب کی کمی بیشی پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ اب اگر کوئی عورت اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ مرد کے تو اللہ نے میراث میں دو حصے رکھے ہیں اور عورت کا ایک۔ یا یہ کہ مرد کو اللہ نے عورتوں پر حاکم بنا دیا ہے اور عورتیں محکوم ہیں یا کوئی مرد اس انداز سے سوچنا شروع کر دے کہ اخراجات کی سب ذمہ داریاں تو مرد پر ڈال دی گئی ہیں۔ پھر عورت کا میراث میں مفت میں ہی حصہ مقرر کردیا گیا ہے یا یہ کہ مرد اپنی بیوی اور بال بچوں کی خوراک، پوشاک، رہائش، تعلیمی ذمہ داریوں کے مکمل اخراجات کا ذمہ دار بنا دیا گیا ہے کہ وہ جیسے بھی بن پڑے کما کر لائے اور اہل خانہ کی خدمت میں پیش کر دے تو اس طرح تو مرد اپنے اہل خانہ کا خادم ہوا حاکم کیسے ہوا۔ تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس قسم کے غلط انداز فکر چھوڑ دو۔ اللہ تعالیٰ نے جو احکام دیئے ہیں اس حیثیت سے دیئے ہیں کہ وہ ہر ایک بات کو خوب جانتا ہے لہٰذا اگر تم میں سے کسی کو کچھ کسر معلوم ہوتی ہے تو اللہ سے اس کا فضل مانگا کرو۔ وہ بڑا صاحب فضل ہے اور تمہاری سب کمزوریاں اور کو تاہیاں دور کردینے پر پوری قدرت رکھتا ہے۔