وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ تَعَالَوْا يَسْتَغْفِرْ لَكُمْ رَسُولُ اللَّهِ لَوَّوْا رُءُوسَهُمْ وَرَأَيْتَهُمْ يَصُدُّونَ وَهُم مُّسْتَكْبِرُونَ
اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ رسول اللہ تمہارے لئے مغفرت (٤) طلب کریں تو وہ اپنے سر موڑ لیتے ہیں، اور آپ انہیں دیکھتے ہیں کہ وہ تکبر کرتے ہیں منہ پھیر لیتے ہیں
[٩] ویسے تو سب منافقوں کا یہی حال تھا۔ مگر ان کا سردار عبداللہ بن ابی اس بات میں بھی ان کا سردار تھا۔ جب بھی ان کی کوئی سازش یا ناشائستہ حرکت یا راز کی بات پکڑی جاتی تو مسلمان ان سے کہتے کہ : چلو، چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگ لو۔ وہ آپ کو خود بھی معاف کردیں گے اور اللہ سے بھی تمہاری مغفرت کی دعا کریں گے۔ ایسے ہی ایک موقعہ پر عبداللہ بن ابی نے مسلمانوں کو یہ جواب دیا کہ ’’تم نے مجھے ایمان لانے کو کہا تو میں ایمان لے آیا۔ تم نے نمازیں ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کیں۔ تم نے مال کی زکوٰۃ ادا کرنے کو کہا تو وہ بھی میں نے ادا کی۔ اب کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ کروں؟‘‘ اس کا کبرونخوت سے بھرا ہوا یہ جواب سن کر آپ کیا سمجھتے ہیں کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا ہوگا ؟ یا مسلمانوں نے اسے آگے کچھ کہا ہوگا ؟ اس کی اسی متکبرانہ کیفیت کا نقشہ اللہ نے اس آیت میں کھینچا ہے۔