وَاللَّهُ يُرِيدُ أَن يَتُوبَ عَلَيْكُمْ وَيُرِيدُ الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الشَّهَوَاتِ أَن تَمِيلُوا مَيْلًا عَظِيمًا
اور اللہ چاہتا ہے کہ تمہارے ساتھ بھلائی کرے، اور جو لوگ اپنی خواہشات کی پیروی کرتے ہیں وہ چاہتے ہیں کہ تم (راہ راست سے) بہت دور چلے جاؤ
[٤٦] معاشرتی اصلاحات پر مخالفین کا شورو غوغا :۔ ان خواہشات نفس کی پیروی کرنے والوں سے مراد وہ ہر طرح کے لوگ ہیں جو اللہ کی ہدایات پر اپنے آباؤ اجداد کے رسم و رواج کو مقدم سمجھتے اور انہی چیزوں سے محبت رکھتے ہیں خواہ وہ یہود و نصاریٰ ہوں یا منافق یا دوسرے مشرکین ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے معاشرتی برائیوں کے خاتمہ کے لیے بے شمار ایسے احکامات نازل فرمائے جن پر عمل کرنا اکثر لوگوں کو ناگوار تھا۔ مثلاً میراث میں لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کا حصہ مقرر کرنا، بیوہ سے سسرال کی بندشوں کو ختم کرنا اور عدت کے بعد اسے نکاح کے لیے پوری آزادی دلانا، متبنّیٰ کی وراثت کا خاتمہ، عورت کو خاوند کی طرح طرح کی زیادتیوں سے نجات دلا کر معاشرہ میں اس کا مقام بلند کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ایسی تمام اصلاحات پر بڑے بوڑھے اور آبائی رسوم کے پرستار چیخ اٹھتے تھے اور لوگوں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بھڑکاتے رہتے تھے۔ مثلاً اللہ تعالیٰ نے چار سے زیادہ بیویوں پر پابندی لگا دی۔ اب جن مسلمانوں نے زائد بیویوں کو طلاق دے کر فارغ کیا تھا، ان کی اولاد سے یوں کہنا کہ اس حکم کی رو سے تمہاری ماؤں اور باپ کے تعلق کو ناجائز ٹھہرایا گیا ہے، تو کیا تم جائز اولاد ہو یا ناجائز وغیرہ وغیرہ۔ اور سب سے بڑھ کر اعتراض یہود کو تھے جنہوں نے از خود کئی حلال چیزوں کو حرام قرار دے رکھا تھا۔ اور اپنے اوہام و خرافات کو شریعت الٰہی کا درجہ دے رکھا تھا۔ مثلاً حیض والی عورت ان کے ہاں ایسی ناپاک تھی جس کے ہاتھ کا پکایا ہوا کھانا بھی جائز نہ تھا اسی لیے وہ حیض کے دوران انہیں بالکل الگ تھلگ رکھتے تھے اور ان کی دیکھا دیکھی ایسا ہی رواج انصار مدینہ میں بھی چل نکلا تھا مگر قرآن کے حکم کی رو سے مجامعت کے سوا حیض والی عورت سے تمام تعلقات اسی طرح رکھے جا سکتے تھے جس طرح پاکیزگی کے دنوں میں ہوتے ہیں۔ ایسی باتوں پر یہود چلا اٹھتے تھے کہ دیکھو یہ نبی ہر ناپاک کو پاک اور ہر حرام کو حلال بنانے پرتُلا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ تم ان لوگوں کی مطلق پروا نہ کرو اور اگر تم لوگ ان کی باتوں پر توجہ دینے لگو گے تو یہ تو تمہیں راہ راست سے کہیں دور جا پھینکیں گے لہٰذا جو احکام تمہیں مل رہے ہیں ان پر ان کے اعتراضات سے بے پروا ہو کر اور بے خوف ہو کر عمل کیے جاؤ۔