وَمَن لَّمْ يَسْتَطِعْ مِنكُمْ طَوْلًا أَن يَنكِحَ الْمُحْصَنَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ فَمِن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن فَتَيَاتِكُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ۚ وَاللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِكُم ۚ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ۚ فَانكِحُوهُنَّ بِإِذْنِ أَهْلِهِنَّ وَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ ۚ فَإِذَا أُحْصِنَّ فَإِنْ أَتَيْنَ بِفَاحِشَةٍ فَعَلَيْهِنَّ نِصْفُ مَا عَلَى الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ ۚ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ الْعَنَتَ مِنكُمْ ۚ وَأَن تَصْبِرُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۗ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
اور تم میں سے جو شخص مومنہ آزاد عورتوں سے شادی کرنے کی استطاعت (36) نہ رکھتا ہو، تو وہ تمہاری مومنہ لونڈیوں میں سے کسی سے شادی کرلے، اللہ تمہارے ایمان کو خوب جانتا ہے (اے مومنو !) تم سب آپس میں ایک ہو، پس تم ان کے مالکوں کی اجازت سے ان سے شادی کرلو، اور ان کا مہر حسب دستور ان کو دو، بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں زانیہ نہ ہوں، اور پوشیدہ طور پر شناساؤں کو رکھنے والی نہ ہوں۔ پس جب وہ نکاح میں آجائیں پھر زنا کا ارتکاب کریں، تو انہیں آزاد عورتوں سے آدھی سزا دی جائے گی (لونڈیوں سے شادی کا) یہ حکم تم میں سے ان کے لیے ہے، جنہیں زنا کا خوف لاحق ہوجائے اور صبر سے کام لینا تمہارے لیے بہتر ہے، اور اللہ بڑا مغفرت کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
[٤٣] محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی۔ اور مذکورہ آیت میں ترجمہ لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی ہوسکتا ہے۔ جن سے نکاح کی اجازت دی جا رہی ہے۔ اور دوسری بار جو اسی آیت میں محصنات (نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ) کا ذکر آیا ہے تو اس کا معنیٰ بھی لامحالہ آزاد غیر شادی شدہ عورتیں ہی لینا پڑے گا۔ اور چونکہ آزاد غیر شادی شدہ زانیہ کی سزا سو کوڑے ہے لہٰذا جو منکوحہ لونڈی زنا کرے اس کی سزا غیر شادی شدہ آزاد عورت سے نصف یعنی ٥٠ کوڑے ہوئے۔ اسی طرح غلام کی سزا بھی ٥٠ کوڑے ہے اور اگر وہ غیر شادی شدہ ہوں تو ان کی سزا تعزیر ہے حد نہیں۔ نصف رجم اور منکرین حدیث کا چکمہ :۔ یہ آیت جہاں اس بات کی دلیل مہیا کرتی ہے کہ سورۃ نور میں بیان شدہ سزا صرف کنوارے مرد و عورت کی ہی ہو سکتی ہے وہاں منکرین حدیث کے ایک اعتراض کا جواب بھی مہیا کرتی ہے۔ ایسے لوگوں کا اعتراض یہ ہے کہ ’’شادی شدہ عورت کی سزائے زنا حدیث کے مطابق رجم ہے۔ اور شادی شدہ لونڈی کی سزائے زنا قرآن کے مطابق شادی شدہ عورت کی سزا کا نصف ہے اور یہ نصف رجم بنتی ہے اور چونکہ نصف رجم ممکن نہیں لہٰذا حدیث میں وارد شدہ سزا درست نہیں ہو سکتی۔‘‘ اور اس سے آگے یہ کہ ’’حدیث بذات خود قابل اعتماد چیز نہیں لہٰذا درست بات یہی ہے کہ عورت اور مرد چاہے کنوارے ہوں یا شادی شدہ بلا امتیاز سب کی سزا سو کوڑے ہے جیسا کہ قرآن میں مذکور ہے۔‘‘ ایک اعتراض کا جواب :۔ اس اعتراض کا جواب دینے سے پہلے یہ لغوی وضاحت ضروری ہے کہ احصان (زنا سے بچاؤ) دو طرح سے ہوتا ہے۔ ایک تو آزادی سے کہ آزاد عورت خاندان کی حفاظت میں ہوتی ہے اور اگر لونڈی آزاد ہوجائے تو اسے بھی ایسا احصان میسر آ جاتا ہے۔ دوسرا احصان نکاح سے ہوتا ہے کہ خاوند بھی زنا سے حفاظت کا ذریعہ بن جاتا ہے۔ اس طرح محصنات کا ترجمہ آزاد عورتیں بھی ہوسکتا ہے اور شادی شدہ عورتیں بھی، اور جب دونوں قسم کے احصان جمع ہوجائیں تو آزاد شادی شدہ عورتیں بھی ہوتا ہے۔ اب اعتراض کا جواب یہ ہے جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے کہ اس آیت نمبر ٢٤ کے ابتدا میں جو محصنات کا لفظ آیا ہے اس کا معنیٰ تو صریحاً آزاد غیر شادی شدہ عورت کی سزا (١٠٠ کوڑے) کا نصف ٥٠ کوڑے ہے اور یہی منکوحہ لونڈی کی زنا کی سزا ہے۔ اور منکرین حدیث فریب یہ دیتے ہیں کہ محصنات کا ترجمہ 'آزاد بیاہی عورت' کر کے اس پر یہ اعتراض وارد کردیتے ہیں اور یہ بات آیت کے ربط کے بھی خلاف ہے جو یہ ہے کہ ’’اگر کوئی شخص آزاد عورت سے نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو کسی مومنہ لونڈی سے نکاح کرلے۔‘‘ یہاں محصنات کا ترجمہ آزاد شادی شدہ عورت ہو ہی نہیں سکتا۔ [٤٤] یعنی ایک آزاد مرد اگر آزاد عورت سے شادی کے اخراجات کا متحمل نہ ہو اور اسے یہ بھی خدشہ ہو کہ اگر نکاح نہ کرے تو جنسی آوارگی کا شکار ہوجائے گا تو اس صورت میں اسے مومنہ لونڈی سے نکاح کرلینے کی اجازت دی گئی اور ساتھ ہی فرمایا کہ پھر بھی اگر تم صبر کرو تو تمہارے حق میں بہتر ہے۔ اس بہتری کی صورت اور حکمت تو اللہ ہی جانتا ہے بظاہر تو یہی بہتری نظر آتی ہے کہ اولاد آزاد پیدا ہوگی اور اس صبر کا جو طریقہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بیان فرمایا ہے وہ یہ ہے کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم کچھ نوجوان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں رہا کرتے اور ہمیں شادی کرنے کا مقدور نہ تھا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو شخص خانہ داری کی استطاعت رکھتا ہے اسے چاہیے کہ شادی کرلے۔ کیونکہ نکاح سے نگاہ نیچی اور شرمگاہ بچی رہتی ہے۔ اور جو یہ طاقت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھا کرے جو اس کی شہوت کو توڑ دیں گے۔‘‘ (بخاری۔ کتاب النکاح، باب من لم یستطع الباءۃ فلیصم)