يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَتَّخِذُوا عَدُوِّي وَعَدُوَّكُمْ أَوْلِيَاءَ تُلْقُونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَقَدْ كَفَرُوا بِمَا جَاءَكُم مِّنَ الْحَقِّ يُخْرِجُونَ الرَّسُولَ وَإِيَّاكُمْ ۙ أَن تُؤْمِنُوا بِاللَّهِ رَبِّكُمْ إِن كُنتُمْ خَرَجْتُمْ جِهَادًا فِي سَبِيلِي وَابْتِغَاءَ مَرْضَاتِي ۚ تُسِرُّونَ إِلَيْهِم بِالْمَوَدَّةِ وَأَنَا أَعْلَمُ بِمَا أَخْفَيْتُمْ وَمَا أَعْلَنتُمْ ۚ وَمَن يَفْعَلْهُ مِنكُمْ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاءَ السَّبِيلِ
اے ایمان والو ! تم لوگ میرے دشمن اور اپنے دشمن کو دوست (١) نہ بناؤ، تم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہو، حالانکہ وہ دین برحق کا انکار کرتے ہیں جو تمہیں ملا ہے، انہوں نے رسول اللہ کو اور تمہیں صرف اس وجہ سے (مکہ سے) نکال دیا ہے کہ تم اپنے رب اللہ پر ایمان لے آئے ہو، اگر تم میری راہ میں جہاد کرنے اور میری خوشنودی حاصل کرنے کے لئے اپنے شہر سے نکلے ہو، تو پھر ان سے چپکے چپکے دوستی کیوں کرتے ہو، میں تو وہ سب جانتا ہوں جو تم چھپاتے ہو، اور جو ظاہر کرتے ہو، اور تم میں سے جو کوئی ایسا کرتا ہے وہ (اللہ کی) سیدھی راہ سے بھٹک جاتاہے
[١] غزوہ مکہ کا فوری سبب :۔ معاہدہ حدیبیہ، جسے اللہ نے فتح مبین قرار دیا ہے، کی دوسری شرط کے مطابق بنو خزاعہ مسلمانوں کے اور بنوبکر قریش کے حلیف بن چکے تھے۔ اس صلح کے ڈیڑھ سال بعد بنوخزاعہ اور بنوبکر کی آپس میں لڑائی ہوگئی تو قریش مکہ نے معاہدہ کے برخلاف کھلم کھلا بنوبکر کی بھرپور مدد کی اور جب بنوخزاعہ نے حرم میں پناہ لی تو انہیں وہاں بھی نہ چھوڑا۔ اس واقعہ کے بعد بنوخزاعہ کے چالیس شتر سوار فریاد کے لیے مدینہ پہنچے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو قریش کی اس بدعہدی پر سخت افسوس اور صدمہ ہوا۔ لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کے لیے مندرجہ ذیل تین شرطیں پیش کیں : ١۔ بنوخزاعہ کے مقتولین کا خون بہا ادا کیا جائے، (٢) قریش بنوبکر کی حمایت سے دستبردار ہوجائیں، (٣) اعلان کیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ختم ہوگیا۔ قاصد نے جب یہ شرائط قریش کے سامنے پیش کیں تو ان کا نوجوان طبقہ بھڑک اٹھا اور ان میں سے ایک جوشیلے نوجوان فرط بن عمر نے قریش کی طرف سے اعلان کردیا کہ ’’صرف تیسری شرط منظور ہے‘‘ جب قاصد واپس چلا گیا تو ان لوگوں کا جوش ٹھنڈا ہو کر ہوش و حواس درست ہوئے اور سخت فکر دامنگیر ہوگئی۔ چنانچہ ابو سفیان کو تجدید معاہدہ کے لیے مدینہ بھیجا گیا۔ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے تجدید معاہدہ کی درخواست کی مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی جواب نہ دیا۔ پھر اس نے علی الترتیب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ ' سیدنا عمر رضی اللہ عنہ حتیٰ کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تک سے سفارش کے لیے التجا کی لیکن سب نے یہی جواب دیا کہ ہم اس معاملہ میں دخل نہیں دے سکتے۔ لاچار اس نے مسجد نبوی میں کھڑے ہو کر یکطرفہ ہی اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی۔ غزوہ مکہ کی مہم میں رازداری :۔ قریش کی بدعہدی ہی حقیقتاً اعلان جنگ کے مترادف تھی۔ پھر ان کے صرف تیسری شرط منظور کرنے سے مزید تاخیر کی گنجائش بھی ختم ہوچکی تھی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہایت رازداری سے مکہ پر چڑھائی کی مہم کا آغاز کیا۔ حلیف قبائل کو جو پیغامات بھیجے گئے ان میں بھی یہ راز داری ملحوظ رکھی گئی تھی اور جس وقت ابو سفیان مدینہ پہنچا اس وقت آپ اس مہم کا آغاز فرما چکے تھے۔ لہٰذا اب تجدید معاہدہ کا وقت گزر چکا تھا۔ اسی لیے آپ نے اسے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ جس قدر رازداری سے آپ نے اس موقع پر کام لیا۔ پہلے کبھی نہ لیا تھا۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ مکہ حرم تھا اور وہاں لڑائی کرنا مکہ کے احترام کے خلاف تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ چاہتے تھے کہ کفار مکہ کو خبر تک نہ ہو اور آپ ایک عظیم لشکر لے کر وہاں پہنچ جائیں۔ جس سے کفار مرعوب ہو کر مقابلہ کی جرأت ہی نہ کرسکیں۔ گویا آپ اس راز داری سے دو فائدے حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ایک یہ کہ مکہ فتح ہوجائے دوسرا یہ کہ وہاں کشت و خون بھی نہ ہو۔ حاطب بن ابی بلتعہ کا کفار مکہ کو خط بھیجنا اور راز فاش ہونے کا خطرہ :۔ انہی دنوں ایک نہایت سچے مسلمان حاطب ابن ابی بلتعہ سے ایک فاش غلطی ہوگئی۔ ان کے بال بچے مکہ میں تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ قریش مکہ کو اس راز سے مطلع کرکے ان پر ایک احسان کردیں تاکہ وہ اس دوران اس احسان کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے بال بچوں کو گزند نہ پہنچائیں۔ مکہ سے سارہ نامی ایک عورت مدینہ آئی ہوئی تھی۔ حاطب رضی اللہ عنہ نے اس عورت کی خدمات حاصل کیں۔ ایک خط لکھ کر اس کے حوالہ کیا جو سرداران قریش کے نام تھا۔ اور اسے یہ تاکید کی کہ نہایت راز سے یہ خط کسی قریشی سردار کے حوالے کردے اور اس عورت کی اس خدمت کے عوض اسے دس دینار بھی دے دیئے۔ اس طرح اس عورت کی حیثیت سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے قاصد کی بن گئی تھی۔ سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کا یہ خط چونکہ بنے بنائے سارے کھیل پر پانی پھیر دینے کے مترادف تھا۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ نے اس عورت کی مدینہ سے روانگی کے فوراً بعد آپ کو بذریعہ وحی اس معاملہ سے مطلع فرما دیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جو اقدام کیا وہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : آپ کا خط واپس لانے کے لئے وفد بھیجنا :۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے، زبیر رضی اللہ عنہ اور مقداد تین آدمیوں کو (ایک مہم پر) روانہ کیا۔ فرمایا (مکہ کے رستہ پر) روضہ خاخ (ایک مقام کا نام) تک جاؤ۔ وہاں تمہیں ایک عورت (سارہ) ملے گی جو اونٹ پر سوار ہوگی۔ اس کے پاس ایک خط ہے وہ لے آؤ۔ چنانچہ ہم تینوں گھوڑے دوڑاتے روضہ خاخ پہنچ گئے تو فی الواقع وہاں ایک شتر سوار عورت ملی۔ ہم نے اسے کہا :’’جو تمہارے پاس خط ہے وہ نکال دو‘‘ وہ کہنے لگی :’’میرے پاس تو کوئی خط نہیں‘‘ ہم نے کہا: ’’نکال دو تو خیر ورنہ ہم تمہارے کپڑے اتار دیں گے‘‘ چنانچہ اس نے اپنے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر ہمیں دے دیا اور ہم وہ خط آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے آئے۔ اس خط کا مضمون یہ تھا : ’’حاطب بن ابی بلتعہ کی طرف سے چند مشرکین مکہ کے نام۔ اور اس میں انہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ (مکہ پر چڑھائی) کی خبر دی گئی تھی۔ حاطب بن بلتعہ سے باز پرس :۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حاطب رضی اللہ عنہ سے پوچھا : حاطب ! یہ کیا بات ہے؟ (تم نے جنگی راز کیوں فاش کردیا ؟) حاطب نے عرض کیا : یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے معاملہ میں جلدی نہ کیجئے۔ (اور میری بات سن لیجئے) میں ایک ایسا آدمی ہوں جو اصل قریشی نہیں۔ آپ کے ساتھ جو دوسرے مہاجر ہیں (وہ اصل قریشی ہیں) ان کے رشتہ دار قریش کے کافروں میں موجود ہیں جن کی وجہ سے ان کے گھر بار اور مال و اسباب محفوظ رہتے ہیں۔ میں نے یہ چاہا کہ میرا ان سے کوئی نسبی رشتہ تو ہے نہیں میں ان پر کچھ احسان کرکے اپنا حق قائم کروں تاکہ وہ میرے رشتہ داروں کی حمایت کریں۔ آپ کا سیدنا حاطب کی معذرت قبول کرنا :۔ میں نے یہ کام کفر یا اپنے دین سے پھر جانے کی بنا پر نہیں کیا۔یہ سن کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مسلمانوں سے) کہا :’’حاطب نے تم سے سچ سچ بات کہہ دی‘‘ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے : ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے اجازت دیجئے کہ میں اس کی گردن اڑا دوں‘‘ آپ نے فرمایا : دیکھو! یہ جنگ بدر میں شریک تھا اور تمہیں معلوم نہیں کہ اللہ نے اہل بدر پر (عرش معلی سے) جھانکا پھر فرمایا :’’(ماسوائے شرک کے) تم جو بھی عمل کرو میں نے تمہیں بخش دیا‘‘ عمرو بن دینار کہتے ہیں کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) [٢] یعنی کفار مکہ کا تم سے یہ سلوک تھا کہ انہوں نے تمہاری زندگی اس قدر اجیرن بنا رکھی تھی کہ تم ترک وطن پر مجبور ہوگئے تھے اور تمہارا ان سے یہ سلوک ہو کہ تم ان کے لیے جنگی راز تک فاش کر ڈالتے ہو۔ تاکہ وہ اپنی ٹھیک ٹھاک مدافعت کا انتظام کرسکیں۔ اور اس معاملہ میں تم مسلمانوں کے اجتماعی مفادات کو بھی نظرانداز کر رہے ہو؟ علاوہ ازیں ان لوگوں نے تمہیں ہجرت پر مجبور کردیا۔ حالانکہ تم نے ان کا کچھ بھی نہ بگاڑا تھا۔ ان کی نظروں میں اگر تمہارا کچھ جرم تھا تو صرف یہ کہ تم اللہ پر ایمان لے آئے تھے؟ [٣] اب اگر تم محض میری رضا کی خاطر اس مہم میں شریک ہو رہے ہو تو کیا یہ کام تم نے میری رضا کے مطابق کیا ہے یا اس کے خلاف؟ اللہ تعالیٰ کے اس عتاب سے معلوم ہوتا ہے کہ سیدنا عمر کو جو سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ پر غصہ آیا تھا اور رسول اللہ سے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو قتل کرنے کی اجازت مانگی تھی۔ تو وہ بھی بہت حد تک حق بجانب تھے کیونکہ سیدنا عمررضی اللہ عنہ جنگی اسرارورموز اور ان کے نتائج سے پوری طرح واقف تھے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا حاطب کو اس لیے معاف فرما دیا کہ ان کی نیت میں کوئی فتور نہ تھا۔ نیز سیدنا حاطبص ایسے راز کے فاش کردینے کے نتائج سے پوری طرح واقف نہ تھے۔ لہٰذا آپ نے اپنی نرمی طبع کی بنا پر خیر کے پہلو کو ترجیح دیتے ہوئے سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کو معاف فرما دیا۔ بالخصوص اس صورت میں کہ اللہ نے مسلمانوں کو سیدنا حاطب رضی اللہ عنہ کے اس فعل کے برے نتائج سے بچا لیا تھا۔ [٤] ان آیات سے کن کن چیزوں پر ثبوت مہیا ہوتا ہے؟ :۔ تم کیا سمجھتے ہو کہ اگر تم نے نہایت رازداری سے کوئی خط قریش مکہ کو بھیجا ہے تو اللہ کو بھی اس کا علم نہ ہوگا ؟ اور تمہاری اتنی فاش غلطی کو بھی وہ چھپا ہی رہنے دے گا ؟ یہ آیات بھی منجملہ ان آیات کے ہے جن سے اللہ تعالیٰ کی ہستی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ کا رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہونے، قرآن کے منزل من اللہ ہونے اور اللہ تعالیٰ کے عالم الغیب و الشہادۃ ہونے کے صریح ثبوت مہیا ہوتے ہیں۔ [٥] اگر کوئی مسلمان دانستہ راز فاش کردے تو وہ قابل گردن زدنی ہے :۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کوئی سچا مسلمان غلطی سے یا نتائج سے اپنی نافہمی کی بنا پر کوئی جنگی راز فاش کر دے تو وہ کافر نہیں ہوجاتا۔ مسلمان ہی رہتا ہے۔ البتہ اس کا یہ جرم قابل مواخذہ ضرور ہے۔ لیکن اگر کوئی مسلمان دانستہ طور پر اور جان بوجھ کر ایسا کام کرے تو وہ منافق بھی ہے کافر بھی ہوجاتا ہے اور گردن زدنی بھی اس کا یہ جرم معاف نہیں کیا جاسکتا۔