يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا تَنَاجَيْتُمْ فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِيَتِ الرَّسُولِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ
اے ایمان والو ! جب تم آپس میں سرگوشی (٨) کرو، تو گناہ اور ظلم و زیادتی اور رسول اللہ کی نافرمانی کے لئے سرگوشی نہ کرو، بلکہ نیکی اور تقویٰ کے لئے سرگوشی کرو، اور اس اللہ سے ڈرتے رہو جس کے پاس تم سب جمع کئے جاؤ گے
[١٠] سرگوشی کی تین صورتیں اور ان کا مقام :۔ اس آیت میں عام مسلمانوں سے خطاب ہے جن میں منافقین بھی شامل ہیں۔ سرگوشی، کاناپھوسی اور کھسر پھسر سب ہم معنی الفاظ ہیں۔ اور ان کی تین صورتیں ہوسکتی ہیں۔ ایک یہ کہ یہ سرگوشی، بدنیتی، برے ارادوں یا کسی ناپاک سازش پر محمول ہو۔ جیسے منافق لوگ مسلمانوں کے خلاف سرگوشیاں کیا کرتے تھے۔ یہ شیطان کی انگیخت ہوتی ہے جیسا کہ اگلی آیت میں صراحت سے مذکور ہے۔ اور یہ بالاتفاق حرام ہے۔ دوسرے یہ کہ سرگوشی بھلائی اور نیکی پر محمول ہو مثلاً دو لڑنے والوں کے درمیان سمجھوتہ کے لیے سرگوشی کی جائے یا جیسے سیدنا یوسف علیہ السلام نے جب اپنے بھائی بن یمین کو اپنے ہاں روک لیا تھا تو باقی بھائیوں نے لوگوں سے الگ تھلگ ہو کر بات چیت کی تھی۔ ایسی سرگوشی جائز ہی نہیں مستحسن ہے۔ بلکہ بعض اوقات واجب بھی ہوسکتی ہے۔ تیسرے ایسی سرگوشی جس کا تعلق صرف دو سرگوشی کرنے والوں سے ہی ہو دوسرے لوگوں سے نہ ہو۔ جیسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے پیشتر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ جس سے ایک بار تو وہ رونے لگیں اور دوسری دفعہ ہنس دیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب من ناجی بین الناس۔۔) ایسی سرگوشی جائز ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔ البتہ سرگوشی کرنے کے بعد کچھ آداب ہیں جو درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جب کہیں تم صرف تین آدمی ہوں تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر کانا پھوسی نہ کریں۔ اس سے اس کو رنج ہوگا۔ البتہ اگر اور بھی آدمی موجود ہوں تو پھر کوئی مضائقہ نہیں۔ (بخاری۔ کتاب الاستیذان۔ باب اذا کانوا اکثر من ثلثۃ۔۔) اور ان آداب کا اصل مدعا یہ ہے کہ کسی شخص کو رنج نہ پہنچے یا وہ کسی بدظنی میں مبتلا نہ ہوجائے۔ یعنی : ١۔ اگر صرف تین آدمی ہیں۔ تو دو آدمی تیسرے کو چھوڑ کر سرگوشی نہ کریں۔ ہاں اگر تیسرے سے اجازت لے لیں تو پھر وہ سرگوشی کرسکتے ہیں۔ اس طرح اس کی بدظنی کا امکان ختم ہوجائے گا۔ ٢۔ اگر آدمی تین سے زیادہ ہوں تو دو آدمی کانا پھوسی کرسکتے ہیں۔ مگر ایسا نہ ہو کہ آدمی چار ہوں اور تین آدمی ایک کو چھوڑ کر کاناپھوسی میں مشغول ہوجائیں۔ وقس علی ہذا ٣۔ اگر آدمی زیادہ ہوں اور دو آدمی کاناپھوسی کرنے لگیں تو ان میں سے کوئی شخص مجلس میں بیٹھے ہوئے کسی خاص شخص کی طرف اشارہ نہ کرے اور نہ اسے دیکھے۔ جس سے مشار الیہ کے دل میں خواہ مخواہ بدظنی پیدا ہوجائے۔ سرگوشی سے منافقوں کا مقصد :۔ غرض بدظنی پیدا کرنے اور رنج پہنچانے والی جتنی بھی صورتیں ممکن ہیں اس آیت کی رو سے سب حرام ہیں اور منافقوں کا تو کام ہی یہ ہوتا تھا کہ جہاں کہیں مسلمانوں کے ساتھ اکٹھ ہوتا تو ناپاک قسم کی کھسر پھسر شروع کردیتے تھے۔ مثلاً جہاد پر روانگی کے وقت یہ کھسر پھسر شروع کردیتے کہ ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اب جہاد پر روانہ والے ان مسلمانوں میں کوئی بھی بچ کر واپس نہ آئے گا۔ معلوم نہیں یہ لوگ کون سے سنہرے خواب دیکھ رہے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ۔