وَإِنْ أَرَدتُّمُ اسْتِبْدَالَ زَوْجٍ مَّكَانَ زَوْجٍ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ أَتَأْخُذُونَهُ بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا
اور اگر تم ایک بیوی کے بدلے دوسری بیوی (28) کرنا چاہو، اور ان میں سے ایک کو مال کثیر دیا تھا، تو اس میں سے کچھ واپس نہ لو، کیا تم (وہ مال) اس پر بہتان باندھ کر اور صریح گناہ کر کے لینا چاہتے ہو
[٣٥] طلاق دیتے وقت عورت سے مال ہتھیانے کی کوشش :۔ یہاں دینے سے مراد صرف حق مہر نہیں۔ اس کے علاوہ بھی جو کچھ تم اپنی بیویوں کو دے چکے ہو۔ وہ ہرگز واپس نہ لینا چاہیے۔ بیوی کا تو خیر حق بھی ہوتا ہے۔ انسان اگر کسی دوسرے شخص کو کوئی چیز دے تو پھر اسے وہ واپس نہیں لینی چاہیے۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’اپنے صدقہ (اور دوسری روایت کے مطابق اپنے ہبہ) کو واپس لینے والا اس کتے کی طرح ہے جو قے کر کے چاٹ لیتا ہے۔‘‘ (بخاری، کتاب الہبہ، باب ھبۃ الرجل لامراتہ والمرأۃ لزوجھا) اور یہ بہتان اور صریح گناہ اس لحاظ سے ہے کہ نکاح کے وقت تم نے بھری مجلس میں گواہوں کے سامنے حق مہر کی ادائیگی کا اقرار کیا تھا۔ لہٰذا عورت سے پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ یا ہبہ کردہ چیز واپس لینا یا واپس لینے کے لیے طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرنا بدترین جرم ہے بلکہ اللہ کا حکم تو یہ ہے کہ اگر تم انہیں طلاق دیتے ہو تو طلاق دیتے وقت انہیں مزید کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کرو۔ چہ جائیکہ تم پہلے دیئے ہوئے میں سے بھی کچھ لینے کی کوشش کرو۔ (نیز اس سلسلہ میں اسی سورت کا حاشیہ نمبر ٧ ملاحظہ فرمائیے)