سورة الحديد - آیت 23

لِّكَيْلَا تَأْسَوْا عَلَىٰ مَا فَاتَكُمْ وَلَا تَفْرَحُوا بِمَا آتَاكُمْ ۗ وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ كُلَّ مُخْتَالٍ فَخُورٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

(یہ بات تمہیں اس لئے بتا دی گئی) تاکہ جو چیز تمہیں نہیں ملی، اس کا افسوس نہ کرو، اور جو نعمت اس نے تمہیں عطا کی ہے اس پر خوشی نہ مناؤ، اور اللہ ہر اس آدمی کو پسند نہیں کرتا ہے جو اترانے والا اور فخر کرنے والا ہوتا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤٠] مسئلہ تقدیر کی مصلحت :۔ تقدیر کے اس مسئلے سے تمہیں اس لیے مطلع کرنا ضروری ہے کہ تمہیں جو بھی دکھ پہنچتا ہے وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے اور دنیا کی کوئی طاقت اسے روک نہیں سکتی۔ لہٰذا ایسے حالات میں تمہیں صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے اور اگر نقصان ہوجائے تو اس کا غم نہ کرنا چاہئے۔ اور جب کوئی بھلائی پہنچے تو بھی تمہیں یہ سمجھنا چاہئے کہ یہ تمہاری اپنی حسن تدبیر یا تمہارے فعل کا نتیجہ نہ تھی بلکہ اللہ نے اسے تمہارے لئے مقدر کر رکھا تھا۔ لہٰذا تمہیں اس پر اترانے، پھولنے یا شیخیاں بگھارنے کے بجائے اللہ کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔ واضح رہے کہ بعض لوگ اپنی غلطیوں اور کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کے لیے تقدیر کا بہانہ بناتے اور اس کا مفہوم اس مصلحت کے بالکل برعکس بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے۔ اور اپنے آپ کو تقدیر کے سامنے مجبور محض ظاہر کرکے بہانہ جوئی سے کام لیتے ہیں۔ ان کی اس بہانہ جوئی کا جواب پہلے کئی مقامات پر گزر چکا ہے۔ [٤١] مال کے فتنہ ہونے کے مختلف پہلو :۔ کسی دنیادار انسان کو مال و دولت مل جائے تو مال کی کثرت اس میں دو خاصیتیں پیدا کردیتی ہے۔ ایک یہ کہ اسے دولت کا نشہ چڑھ جاتا ہے، اس کا دماغ ٹھکانے نہیں رہتا اور وہ اپنے آپ کو کوئی بلند تر چیز اور دوسروں کو حقیر سمجھنے لگتا ہے اور دوسری یہ کہ مال جوں جوں زیادہ ہوتا ہے تو مزید مال جمع کرنے کی ہوس اس میں اور بڑھتی چلی جاتی ہے اور وہ ننانوے کے چکر میں پڑجاتا ہے اور بالخصوص اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے اس کی جان نکل جاتی ہے۔ ہاں نام و نمود کی بات ہو تو ایسے لوگ خرچ بھی کرتے ہیں اور شیخیاں بھی بگھارتے ہیں اور اپنے اس عمل کو خوب تر سمجھتے اور دوسروں کو یہی کچھ سکھاتے اور کرنے کو کہتے ہیں۔ منافقوں میں جو لوگ مالدار تھے وہ انہیں دونوں امراض میں مبتلا تھے۔ مال کے نشہ میں مست اور جہاد کے لیے خرچ کرنے کو اپنے مال کا ضیاع تصور کرتے تھے۔ انہیں بتایا جارہا ہے کہ اگر تم ان باتوں سے باز نہ آئے تو اس کا نقصان تمہیں کو ہوگا تمہارے مال خرچ کرنے سے اللہ کو تو کچھ فائدہ نہیں پہنچتا اور نہ تمہارے بخل کرنے سے اس کا کچھ نقصان ہوجاتا ہے۔ البتہ تمہاری بہتری اسی بات میں ہے کہ تم ایسی باتوں سے باز آجاؤ۔