مَا أَصَابَ مِن مُّصِيبَةٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي أَنفُسِكُمْ إِلَّا فِي كِتَابٍ مِّن قَبْلِ أَن نَّبْرَأَهَا ۚ إِنَّ ذَٰلِكَ عَلَى اللَّهِ يَسِيرٌ
جو مصیبت (٢١) بھی زمین پر نازل ہوتی ہے یا تمہاری جان پر تو وہ لوح محفوظ میں، قبل اس کے کہ ہم اسے پیدا کریں، لکھی ہوئی ہے، بے شک ایسا کرنا اللہ کے لئے آسان ہے
[٣٨] جن حالات میں یہ سورت نازل ہوئی وہ مخلص مسلمانوں کے لیے بڑے صبر آزما تھے۔ چار قسم کے دشمن مسلمانوں کی نوزائیدہ ریاست کو صفحہ ہستی سے نیست و نابود کرنے پر تلے بیٹھے تھے ایک قریش مکہ، دوسرے مدینہ کے اردگرد کے مشرک قبائل۔ تیسرے یہود مدینہ اور چوتھے منافقین جو ہر دشمن اسلام قوت سے اندرونی ساز باز رکھتے تھے اور مسلمانوں کے لیے مار آستین بنے ہوئے تھے ان حالات میں جو ذہنی اور ظاہری پریشانیاں مسلمانوں کو لاحق ہوسکتی تھیں۔ ان کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ ان حالات میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ تم یہ نہ سمجھو کہ ہم تمہاری ان مشکلات و مصائب سے بے خبر ہیں۔ بلکہ زمین میں جو بھی حادثہ پیش آتا ہے یا تمہیں کسی قسم کی تکلیف پہنچتی ہے اسے ہم اس کے وقوع سے پہلے سے ہی جانتے ہیں کیونکہ نوشتہ تقدیر میں یہ سب کچھ لکھا ہوا موجود ہے۔ اور تمہیں ایسے حالات سے گزارنا اس لیے ضروری تھا کہ مومنوں اور منافقوں کا امتیاز کھل کر سامنے آجائے۔ عنقریب اسلام کو غلبہ حاصل ہونے والا ہے۔ اور تمہاری امت کو تمام دنیا کی قیادت کے لیے منتخب کیا جارہا ہے۔ لہٰذا منافقوں کو چھانٹ کر الگ کردینا ضروری تھا کہ وہ بھی اپنے آپ کو اس قیادت کے حقدار اور حصہ دار نہ سمجھ بیٹھیں اور ان کی صحیح قدر و قیمت انہیں خود بھی اور دوسروں کو بھی معلوم ہوجائے۔ [٣٩] اس آیت کی تشریح کے لیے سورۃ اعراف کی آیت نمبر ٢٤ کا حاشیہ ملاحظہ فرمائیے۔