مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ وَلَهُ أَجْرٌ كَرِيمٌ
وہ کون ہے جو اللہ کو اچھا قرض (١١) دے، پس وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اس کے لئے بہت عمدہ اجر (یعنی جنت) ہے
[١٦] قرض حسنہ کے سلسلہ میں دس ہدایات :۔ قرض حسنہ سے مراد ہر وہ مال ہے جو محض اللہ کی رضا کے لیے اس کی ہدایات و احکام کے مطابق خرچ کیا جائے۔ خواہ وہ فرضی صدقہ یا زکوٰۃ ہو یا واجبی صدقات ہوں یا نفلی ہوں اور خواہ وہ فی سبیل اللہ جہاد میں خرچ کیا جائے یا کسی محتاج کی احتیاج کو دور کرنے کے لیے اسے دیا جائے۔ قرض حسنہ کے سلسلہ میں مندرجہ ذیل دس امور کا لحاظ رکھنا اسے افضل صدقہ بنا دیں گے۔ (١) حلال کمائی سے خرچ کیا جائے کیونکہ حرام کمائی سے صدقہ قبول نہیں، (٢) صدقہ میں ناقص مال نہ دے، (٣) اس وقت صدقہ کرے جبکہ خود بھی اسے احتیاج ہو، (٤) اپنی احتیاج پر دوسرے کی احتیاج کو مقدم رکھے، (٥) صدقہ چھپا کردینا زیادہ بہتر ہے۔ (٦) صدقہ دینے کے بعد احسان نہ جتلائے اور نہ ہی کسی دوسری صورت میں اس کا معاوضہ حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ یہ باتیں صدقہ کو برباد کردیتی ہیں، (٧) صدقہ میں نمودو نمائش یعنی ریا کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہ بات بھی صدقہ کو برباد کردیتی ہے، (٨) اپنے دیئے ہوئے صدقہ کو حقیر جانے۔ صدقہ دے کر اس کا نفس اس نیکی پر پھول نہ جائے، (٩) اگر صدقہ میں اپنا بہترین اور پسندیدہ مال دے تو یہ اس کے اپنے حق میں بہت بہتر ہے۔ (١٠) محتاج کو صدقہ دینے کے بعد یہ نہ سمجھے کہ میں نے اس پر احسان کیا ہے بلکہ یہ سمجھے کہ میرے مال میں اس کا یہ حق تھا اور میں نے اس کا حق ادا کیا ہے اور مستحق کو حق دے کر اپنے سر سے بوجھ ہلکا کیا ہے۔ [١٧] قرضہ حسنہ کے دو فائدے :۔ قرضہ حسنہ دینے والوں سے اللہ تعالیٰ نے دو وعدے فرمائے ایک یہ کہ اللہ اسے کئی گناہ زیادہ کرکے واپس کرے گا۔ دنیا میں بھی ایسے خرچ کیے ہوئے مال کی واپسی کا اللہ نے وعدہ کر رکھا ہے۔ (٣٤: ٣٩) اور آخرت میں تو سات سو گنا یا اس سے بڑھ کر بھی اضافہ ہوسکتا ہے یعنی قرضہ حسنہ کی مندرجہ بالا شرائط کو جتنا زیادہ ملحوظ رکھا جائے گا۔ اسی تناسب سے اس کے اجر میں اضافہ ہوگا۔ اور دوسرا وعدہ یہ کہ انہیں عمدہ اجر عطا کرے گا۔ یہ فقرہ اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کے ہی عطا کردہ مال میں سے انسان اس مال کا کچھ حصہ اللہ تعالیٰ کے کہنے کے مطابق خرچ کردے تو انسان کو بدلہ ملنے کا حق کہاں ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود اللہ ایسے قرض حسنہ دینے والوں کو بہت عمدہ اجر عطا فرمائے گا۔ واضح رہے کہ اللہ کا بندے کو اصل سے دوگنا یا زیادہ دینے کا معاملہ کوئی سود بیاج کا معاملہ نہیں ہے۔ اس لیے یہ معاملہ آقا اور اس کے غلام کے درمیان ہے۔ اور غلام کی خدمات کا مالک جتنا بھی صلہ دے دے، برابر برابر دے دوگنا دے، دس بیس گنا دے وہ سود بیاج نہیں کہلا سکتا۔ البتہ یہ اندازہ ضرور کیا جاسکتا ہے کہ آقا اپنے غلام کی خدمات کا کس قدر قدر شناس اور کریم النفس ہے۔