أَأَنتُمْ تَخْلُقُونَهُ أَمْ نَحْنُ الْخَالِقُونَ
اسے تم پیدا کرتے ہو، یا ہم اس کے پیدا کرنے والے ہیں
[٢٧] رحم مادر میں انسانی تخلیق کا نقطہ آغاز :۔ پہلی قابل غور بات یہ ہے کہ انسان کا نطفہ بذات خود کیا چیز ہے؟ وہ کن چیزوں سے بنتا ہے؟ جن چیزوں سے نطفہ بنتا ہے وہ زندہ تھیں یا مردہ؟ اور اس نطفہ کے بننے میں یا بنانے میں تمہارا بھی کچھ عمل دخل یا اختیار تھا ؟ پھر اس نطفہ کو رحم مادر میں ٹپکانے کی حد تک تو اختیار انسان کو ہے۔ اس کے بعد پھر اس کا اختیار کلی طور پر ختم ہوجاتا ہے۔ نطفہ کا ایک قطرہ لاکھوں جراثیم یا کیڑوں پر مشتمل ہوتا ہے جو صرف طاقتور خوردبین سے نظر آسکتے ہیں۔ اسی طرح رحم مادر میں نسوانی بیضہ کا وجود بھی خورد بین کے بغیر نظر نہیں آسکتا۔ نطفہ کا ایک جرثومہ جب نسوانی بیضہ میں داخل ہوتا ہے۔ پھر ان دونوں کے ملنے سے ایک چھوٹا سا زندہ خلیہ (Cell) بن جاتا ہے۔ یہی انسانی زندگی کا نقطہ آغاز ہے اور اسی کا نام استقرار حمل ہے۔ نطفہ ٹپکانے کی حد تک تو مرد کو اختیار ہے۔ مگر یہ طاقت نہ مرد میں ہے نہ عورت میں اور نہ دنیا کی کسی اور طاقت میں کہ وہ نطفہ سے حمل کا استقرار کرا دے۔ پھر اس نقطہ آغاز سے ماں کے پیٹ میں بچے کی درجہ بدرجہ پرورش۔ ہر بچے کی الگ الگ صورت گری۔ ہر بچے کے اندر مختلف ذہنی و جسمانی قوتوں کو ایک خاص تناسب کے ساتھ رکھنا جس سے وہ ایک امتیازی انسان بن کر اٹھے۔ کیا یہ ایک خالق کے سوا کسی اور کا کام ہوسکتا ہے؟ یا اس میں ذرہ برابر بھی کسی دوسرے کا کوئی دخل ہے؟ پھر یہ فیصلہ کرنا بھی اللہ کے اختیار میں ہے کہ بچہ لڑکی ہو یا لڑکا۔ خوش شکل ہو یا بدشکل، اس کے نقوش تیکھے ہوں یا بھدے؟ طاقور اور قد کاٹھ والا ہو یا کمزور نحیف اور تھوڑے وزن والا، تندرست ہو یا اندھا، بہرا، لنگڑا، ذہین ہو یا کند ذہن۔ یہ سب ایسی باتیں ہیں جو خالصتاً اللہ تعالیٰ خالق کائنات کے اختیار میں ہیں۔ کیا ان سب باتوں کو سمجھ لینے کے بعد بھی انسان یہ تصدیق نہیں کرسکتا کہ اسے پیدا کرنے والا اللہ رب العالمین ہی ہوسکتا ہے۔ اور جو مردہ غذاؤں سے ہر روز لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں انسان اور دوسرے جاندار پیدا کر رہا ہے وہ مردہ انسانوں کے بے جان ذرات سے پھر انہیں دوبارہ زندگی نہیں بخش سکتا ؟