سورة النسآء - آیت 11

يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِي أَوْلَادِكُمْ ۖ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْأُنثَيَيْنِ ۚ فَإِن كُنَّ نِسَاءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ ۖ وَإِن كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ ۚ وَلِأَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَكَ إِن كَانَ لَهُ وَلَدٌ ۚ فَإِن لَّمْ يَكُن لَّهُ وَلَدٌ وَوَرِثَهُ أَبَوَاهُ فَلِأُمِّهِ الثُّلُثُ ۚ فَإِن كَانَ لَهُ إِخْوَةٌ فَلِأُمِّهِ السُّدُسُ ۚ مِن بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُوصِي بِهَا أَوْ دَيْنٍ ۗ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَاؤُكُمْ لَا تَدْرُونَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ لَكُمْ نَفْعًا ۚ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَلِيمًا حَكِيمًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم (13) دیتا ہے کہ لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے، اگر لڑکیاں دو سے زیادہ ہوں تو انہیں ترکہ کا دو تہائی ملے گا، اور اگر ایک لڑکی ہوگی تو اسے آدھا ملے گا، اور اگر اس کا کوئی لڑکا ہے، تو اس کے باپ ماں میں سے ہر ایک و ترکہ کا چھٹا حصہ ملے گا، اور اگر اس کا کوئی لڑکا نہیں ہے اور اس کے وارث اس کے باپ ماں ہیں، تو اس کی ماں کو تہائی حصہ ملے گا، اگر میت کے کئی بھائی ہیں تو اس کی ماں کو چھٹا حصہ ملے گا (وراثت کی یہ تقسیم) میت کی وصیت 14) کی تنفیذ، یا اگر اس پر قرض ہے تو اس کی ادائیگی کے بعد ہوگی، تم نہیں جانتے کہ تمہارے آباء اور تمہارے لڑکوں (15) میں سے کون تماہرے لیے زیادہ نفع بخش ہیں (اس لیے) اللہ کے مقرر کیے ہوئے حصوں کو نافذ کرو، بے شک اللہ بڑا علم والا اور عظیم حکمتوں والا ہے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٧] اس سورۃ کی آیت نمبر ١١، اور ١٢ میں میراث، وصیت اور قرضہ کے جو احکام بیان ہوئے ہیں۔ انہیں ہم سہولت کی خاطر نئی ترتیب سے پیش کرتے ہیں اور احادیث کے حوالوں کے ساتھ پیش کرتے ہیں۔ علم میراث یا علم الفرائض کی اہمیت ١۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (علم) الفرائض اور قرآن خود سیکھو اور لوگوں کو سکھلاؤ اس لیے کہ میں وفات پانے والا ہوں (ترمذی : ابو اب الفرائض، باب فی تعلیم الفرائض) ٢۔ وصیت اور وراثت کے احکام :۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علم تین ہیں اور ان کے سوا جو کچھ ہے وہ فضل ہے۔ آیات محکمات کا علم، سنت قائمہ اور انصاف کے ساتھ ورثہ کی تقسیم۔ (دار قطنی، ابن ماجہ، حاشیہ حدیث ترمذی مذکورہ بالا) قرضہ کی ادائیگی : قرضہ کی ادائیگی کا ذکر اگرچہ وصیت کے بعد مذکور ہے تاہم میت پر قرضہ کے بوجھ کے متعلق احادیث صحیحہ میں جو وعید آئی ہے اس کی بنا پر امت کا اجماع ہے کہ تقسیم میراث کے وقت سب سے پہلے قرضہ کی ادائیگی ضروری ہے۔ اگر بیوی کا حق مہر ادا نہ ہوا ہو تو وہ بھی قرضہ ہے اگر میت پر حج فرض ہوچکا ہو مگر کسی وجہ سے کر نہ پایا ہو۔ یا اس نے منت مانی ہو تو اس قسم کے اخراجات تقسیم میراث اور وصیت پر عمل سے پہلے نکالے جائیں گے۔ وصیت کے احکام۔۔ وصیت کی تحریر ٣۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہتا ہو تو اسے دو راتیں بھی اس حال میں نہ گزارنا چاہئیں کہ وصیت اس کے پاس لکھی ہوئی موجود نہ ہو۔ (مسلم۔ کتاب الوصیۃ) ٤۔ وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال تک :۔ وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے دوران فرمایا۔ اللہ عزوجل نے ہر صاحب حق کا حق مقرر کردیا لہٰذا اب وارث کے حق میں وصیت جائز نہیں۔ (ترمذی، ابو اب الوصایا باب لا وصیہ لوارث) اسی طرح وصیت کی آخری حد ایک تہائی مال سے زیادہ نہیں ہے۔ ٥۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں مکہ میں بیمار ہوا اور مرنے کے قریب ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے۔ میں نے کہا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ! میرے پاس مال بہت ہے اور ایک بیٹی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں۔ کیا میں اپنا مال (اللہ کی راہ میں) دے دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’نہیں‘‘ پھر میں نے کہ’’ دو تہائی دے دوں؟ ‘‘آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں‘‘ پھر میں نے کہا ’’نصف دے دوں؟‘‘ فرمایا: ’’نہیں۔‘‘ پھر میں نے پوچھا: تہائی دے دوں؟ فرمایا:’’تہائی دے سکتے ہو اور یہ بھی بہت ہے۔‘‘ پھر فرمایا:’’اگر تم اپنی اولاد کو مالدار چھوڑ جاؤ تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں محتاج چھوڑ جاؤ اور وہ لوگوں سے مانگتے پھریں۔ بے شک جو مال تم اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے تمہیں اس کا اجر ملے گا۔ حتیٰ کہ اس نوالہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں دو گے۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض، باب میراث البنات۔ نیز مسلم : کتاب الوصیۃ، باب وصیۃ بالثلث) ٦۔ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ ’’کاش! لوگ تہائی سے کم کر کے چوتھائی کی وصیت کریں۔ کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ تہائی بھی بہت ہے۔‘‘ اور وکیع کی روایت میں کثیر اور کبیر کے الفاظ ہیں۔ (مسلم، کتاب الوصیہ) ٧۔ قاتل مقتول کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’قاتل مقتول کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ (ترمذی، ابو اب الفرائض باب فی ابطال میراث القاتل) ٨۔ کافر مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہوتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’کافر یا مرتد مسلمان کا اور مسلمان کافر کا وارث نہیں ہو سکتا۔‘‘ (بخاری، کتاب الفرائض۔ باب لایرث المسلم الکافر۔۔ مسلم، کتاب الفرائض) میراث کی تقسیم سے متعلقہ احکام نازل ہونے سے پہلے مسلمانوں پر وصیت فرض کی گئی تھی کہ وہ اپنی موت سے پہلے اپنے والدین اور دوسرے اقرباء کے متعلق وصیت کر جائیں کہ انہیں میت کی جائیداد سے کتنا کتنا حصہ دیا جائے۔ پھر میت کی وصیت میں اگر کوئی شخص گڑ بڑ کرنے کی کوشش کرے گا تو اس کا بار گناہ انہی لوگوں پر ہوگا جو اس کی وصیت میں تبدیلی کریں گے۔ ہاں اگر کسی قریبی کو یہ خطرہ لاحق ہوجائے کہ وصیت کرنے والے نے جانبداری سے کام لیا ہے یا حصوں کی تقسیم کے متعلق انصاف کے ساتھ وصیت نہیں کی۔ اور ایسے غلط وصیت کردہ حصوں میں اصلاح کر دے (یعنی تبدیلی کرنے والے کی نیت بخیر ہو اور خودغرضی پر منحصر نہ ہو) تو اسے ایسی تبدیلی کرنے پر کچھ گناہ نہ ہوگا (سورہ بقرہ کی آیات نمبر ١٨٠ تا ١٨٢ کا ترجمہ) پھر جب اللہ تعالیٰ نے سورۃ نساء میں خود ہی والدین اور اقرباء کے حصے مقرر فرما دیئے (جسے علم الفرائض یا علم میراث کی اصطلاح میں ذوی الفروض یا ذوی الفرائض کہتے ہیں) تو ان آیات میراث کی رو سے وصیت کی فرضیت ختم ہوگئی۔ بالفاظ دیگر وصیت کی فرضیت کا حکم منسوخ ہوگیا۔ اور اب وصیت کی حیثیت فرض کے بجائے محض اختیاری رہ گئی۔ یعنی اگر کوئی شخص وصیت کرنا چاہے تو کرسکتا ہے اور اگر نہ کرے یا کر ہی نہ سکے تو بھی کوئی حرج نہیں۔ البتہ اس وصیت پر سنت نبویہ کی رو سے دو پابندیاں لگا دی گئیں۔ ایک یہ کہ کوئی شخص اپنے تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتا اور دوسرے یہ کہ وصیت ذوی الفروض کے حق میں نہیں کی جا سکتی جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث میں ان دونوں باتوں کی وضاحت آ گئی ہے۔ اور ان دونوں پابندیوں کی غرض و غایت یہ ہے کہ اس طرح اللہ تعالیٰ کے مقرر کردہ حصوں میں گڑبڑ اور بے انصافی ہوجاتی ہے۔ گویا آپ کو پہلی شکایت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تہائی مال کی پابندی کیوں لگائی؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ بات تو قرآن سے ثابت ہے کہ وراثت کے اصل حقدار والدین اور اقربین ہیں اور ان کے حصے اللہ نے خود مقرر کردیئے جو غیر متبدل ہیں۔ پھر کوئی شخص سارے مال کی وصیت کیسے کرسکتا ہے؟ سوچنے کی بات ہے کہ وصیت میں اصلاح کا حق اگر کسی دوسرے شخص کو دیا جا سکتا ہے جیسا کہ سورۃ بقرہ کی مذکورہ بالا آیت ١٨٢ سے ثابت ہے تو آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کیوں نہیں دیا جا سکتا۔ وارثوں کے حق میں وصیت کی نفی بھی قرآن سے ثابت ہے کیونکہ یہ دوسرے حقداروں کے حق پر اثرانداز ہوتی ہے اور یہی وہ جانبداری یا ناانصافی کی بات ہے جس کا ذکر سورۃ بقرہ کی مندرجہ بالا آیات میں آیا ہے۔ پھر فرماتے ہیں کہ :’’ آپ اس کا خیال بھی کرسکتے ہیں کہ قرآن کریم وصیت کو فرض قرار دے اور بلا مشروط یعنی پورے مال میں وصیت کا حق دے اور رسول اللہ یہ فرمائیں کہ نہیں وصیت ایک تہائی مال میں ہو سکتی ہے اور وہ بھی غیر وارثین کے لیے۔ خدا کے حکم میں ایسا رد و بدل یقیناً رسول اللہ کی شان کے خلاف ہے جن کا ایک ایک سانس قرآن کی اتباع میں گزرا (قرآنی فیصلے رضی اللہ عنہ ١١١) اب دیکھئے پرویز صاحب کو کبھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان کا خیال آتا ہے اور کبھی مسلمانوں کی روایت پرستی کا۔ مگر انہیں یہ خیال کبھی بھولے سے بھی نہیں آتا کہ کہیں میری قرآنی بصیرت ہی کسی ٹیڑھے راستے پر تو نہیں چل نکلی؟ اور اس قرآنی بصیرت کا نتیجہ یہ نکلا کہ آپ نے وصیت اور ترکہ کے الگ الگ احکام کو یوں گڈ مڈ کردیا کہ دونوں کا جنازہ نکال دیا۔ اور ان کا اپنا موقف یہ ہے کہ ’’میت کو اپنی جائیداد و اموال کی تقسیم میں پورا پورا اختیار ہے کہ وہ اپنے مصالح و مقتضیات کے مطابق جسے جی چاہے اور جتنا جی چاہے دے۔ ہاں اگر پھر بھی وصیت اور قرضہ کی ادائیگی کے بعد کچھ بچ جائے تو وہ تقسیم ہوگا اور اگر نہیں بچتا تو نہ سہی‘‘ (ایضاً ص ١٠٩) لہٰذا اب ہم ایک دوسرے انداز سے قرآن ہی سے یہ ثابت کریں گے کہ پرویز صاحب کا یہ موقف قرآن کے صریحاً خلاف ہے۔ نیز یہ کہ محولہ بالا دونوں احادیث قرآن کے عین مطابق ہیں آپ کے موقف کا پہلا حصہ یہ ہے کہ ’’میت جسے چاہے دے دے۔‘‘ اس ’’جسے چاہے‘‘ میں سے والدین اور اقربین کو بہرحال خارج کرنا پڑے گا۔ یعنی جسے چاہے کا اطلاق غیر وارثوں پر ہی ہوسکتا ہے۔ اس لیے کہ والدین اور اقربین کے حصے تو اللہ نے خود مقرر کردیئے ہیں۔ لہٰذا وارثوں کے حق میں وصیت کی ضرورت ختم ہوگئی۔ اور اگر کوئی شخص وارثوں کے مقررہ حصوں کے بعد کسی وارث کے حق میں وصیت کرے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ اللہ کے مقررہ کردہ حصوں سے مطمئن نہیں، نہ ہی اسے اللہ کے علم و حکمت پر کچھ اعتماد ہے۔ ایسا شخص اگر کسی وارث کے حق میں وصیت کر کے اللہ کے مقرر کردہ حق میں اضافہ کرتا ہے تو اس کا لامحالہ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دوسرے وارثوں کے حصوں میں اسی نسبت سے کمی واقع ہوگی اور اگر کسی کے حصہ میں کمی کرتا ہے یا اس کا حصہ ختم کرتا ہے تو ایسی وصیت باطل قرار پائے گی۔ کیونکہ ایسی وصیت سورۃ بقرہ کی آیت نمبر ١٨١ کی رو سے ﴿جَنَفًا اَوْ اِثْمًا﴾ کے ضمن میں آتی ہے جس کی اصلاح کردینا ازروئے قرآن نہایت ضروری ہے۔ علاوہ ازیں جو شخص وارثوں کے حق میں کچھ وصیت کرتا ہے تو یہ وصیت خواہ کمی کی ہو یا بیشی کی یا تو آبائی جانب یعنی والدین کے متعلق ہوگی یا ابنائی جانب یعنی اولاد کے متعلق ہوگی اور ان دونوں کے متعلق اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : ﴿لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ۭ فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ۭاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِـیْمًا ﴾(4 : 11) تم نہیں جانتے کہ فائدہ کے لحاظ سے تمہارے باپ داداؤں اور بیٹوں پوتوں میں سے کون تم سے نفع کے لحاظ سے زیادہ قریب ہے۔ یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔ اگر کوئی شخص وارثوں کے حق میں اللہ کے مقرر کردہ حصوں کے علی الرغم وصیت کرتا ہے تو وہ صرف اس آیت کی خلاف ورزی ہی نہیں کرتا بلکہ اللہ کے علم و حکمت کو بھی چیلنج بھی کرتا ہے۔ اور ﴿لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا ﴾ کو بھی۔ ان قرآنی دلائل سے واضح طور پر یہ بات ثابت ہوجاتی ہے کہ وارثوں کے حق میں وصیت کرنا قرآن کے منشا کے خلاف ہے نیز پرویز صاحب کا یہ نظریہ کہ 'جتنا چاہے دے دے' کے زمرہ سے وارثوں کو بہرحال خارج کرنا ہی پڑے گا۔ اب پرویز صاحب کے موقف کے دوسرے حصہ 'جتنا چاہے دے دے' کی طرف آئیے۔ سورۃ بقرہ کی آیت ١٨٠ کی رو سے والدین اور اقربون کے لیے وصیت فرض قرار دی گئی اور سورۃ نساء کی آیت نمبر ١١ کی رو سے اللہ تعالیٰ نے خود ہی والدین اور اقربوں کا حصہ مقرر فرما دیا۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم ورثہ کے وقت والدین اور اقربون کو کسی صورت میں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ان دونوں کے نتائج کو ملانے سے نتیجہ یہ نکلا کہ کوئی شخص اپنا سارا مال غیر وارثین کے لیے وصیت نہیں کرسکتا۔ وہ 'جتنا جی چاہے' مال نہیں دے سکتا۔ بلکہ مال کا کچھ حصہ ہی وصیت کے ذریعہ دے سکتا ہے اور وہ بھی صرف غیر وارثوں کو دے سکتا ہے وارثوں کو نہیں۔ اب رہی یہ بات کہ میت اپنے مال کا 'کچھ حصہ' جو وصیت کرسکتا ہے وہ کیا ہونا چاہیے تو قرآن کے دونوں مقامات کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ متروکہ مال کے اصل حقدار والدین اور اقربون ہی ہیں۔ لہٰذا مال کا زیادہ تر حصہ انہیں ہی ملنا چاہیے اور کم تر حصہ ایسا ہونا چاہیے جو میت اپنے اختیار سے کسی غیر وارث کو بذریعہ وصیت دے سکتا ہے۔ اب 'اس کم تر حصہ' کی تحدید فی الواقع قرآن میں مذکور نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بتلایا کہ یہ کم تر حصہ زیادہ سے زیادہ ایک تہائی مال تک ہے اس سے زیادہ حصہ کی وصیت کی جائے گی تو یہ ﴿جَنَفًا اَوْ اِثْمًا﴾ کے ضمن میں آئے گی جس میں رد و بدل اور ترمیم کی جا سکتی ہے اور اس اصلاح کا حق اللہ تعالیٰ نے ہر مصلح کو دیا ہے۔ اور پرویز صاحب یہ حق میت کی موجودگی میں جماعت کو اور میت کی موت کے بعد اسلامی عدالت کو دیتے ہیں (قرآنی فیصلے ص ١١٠) اور یہ بات تو شاید طلوع اسلام بھی تسلیم کرے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی امت کے سب سے بڑے مصلح، ہمدرد اور خیر خواہ بھی تھے اور اسلامی عدالت بھی۔ پھر اگر آپ کی یہ تحدید با اعتماد ذرائع سے درست ثابت ہوجائے اور یہ تحدید قرآن کے خلاف بھی نہ ہو بلکہ اس قاعدہ کے مطابق ہو کہ آپ کو قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر و تعیین کا حق بھی قرآن ہی نے دیا ہو تو پھر معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایسی متعین کی ہوئی حد کو تسلیم کرنے میں طلوع اسلام کو کیا اعتراض ہوسکتا ہے؟ اور وہ اس بات کا واویلا کرنے میں کیسے حق بجانب سمجھا جا سکتا ہے کہ یہ احادیث قرض کے صریحاً خلاف ہیں۔ واضح رہے کہ مسلمانوں کی اکثریت، جو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو حجت تسلیم کرتی ہے، کے عقیدہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ تحدید وحی خفی کے ذریعہ فرمائی تھی جو ﴿بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ﴾ میں شامل ہوتی ہے۔ [١٨] قرآن میں مذکور وراثت کے حصے :۔ سب سے پہلے اولاد کے حصوں کا ذکر کیا گیا اور اس میں یہ کلیہ بیان کیا گیا کہ ہر لڑکے کا حصہ لڑکی سے دگنا ہوگا۔ یہ اس لیے کہ اسلام نے معاشی ذمہ داریوں کا بوجھ مرد پر ڈالا اور عورت کو اس سے سبکدوش کردیا ہے اور جب مرد کمانے کے قابل نہیں رہتا مثلاً باپ، دادا وغیرہ تو اس کا حصہ عورت یعنی ماں، دادی وغیرہ کے برابر ہوتا ہے۔ [١٩] اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہی ہوں تو اگر ایک لڑکی ہو تو اسے آدھا ترکہ ملے گا۔ دو یا دو سے زیادہ ہوں تو دو تہائی۔ اور یہ عورتوں کے حصہ کی آخری حد ہے۔ شیعہ حضرات کی طرف سے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو مطعون کرنے کے سلسلہ میں ایک یہ اعتراض بھی کیا جاتا ہے کہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اپنے باپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ترکہ سے وراثت کا حصہ مانگا تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے انہیں بموجب حکم قرآن نصف حصہ ترکہ کا دینے سے انکار کردیا۔ اسی طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے یہی حصہ مانگا تو انہوں نے بھی انکار کردیا لہٰذا یہ دونوں غاصب ہیں۔ جس طرح انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حق خلافت غصب کیا تھا اسی طرح سیدہ فاطمہ کا حق وراثت غصب کیا تھا۔ اس اعتراض میں حق خلافت کے غصب کا جواب تو ہم آگے چل کر اسی سورۃ کی آیت نمبر ٥٤ کے حاشیہ میں دیں گے اور حق وراثت کا جواب دے رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت :۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیثیتیں دو تھیں : ایک شخصی یا ذاتی اور دوسری بحیثیت رسول اور فرمانروائے ریاست اسلامی۔ لہٰذا ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ ان دو حیثیتوں کے لحاظ سے آپ کا ترکہ کیا تھا اور ان سے متعلق آپ نے کیا احکام صادر فرمائے تھے۔ ذاتی حیثیت سے ترکہ اور اس کے احکام سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمایئے : ١۔ عمرو بن حارث کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی دینار (بطور ترکہ) چھوڑا اور نہ درہم۔ نہ کوئی غلام اور نہ لونڈی۔ صرف ایک سفید خچر چھوڑا جس پر آپ سواری کرتے تھے یا کچھ جنگی ہتھیار تھے اور جو زمین تھی وہ آپ مسافروں کے لیے صدقہ کر گئے تھے۔ (بخاری، کتاب الفرائض، باب قول النبی لا نورث ماترکنا صدقۃ) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات ہوئی تو آپ کی زرہ (ابو الشحم) یہودی کے پاس تیس صاع جو کے عوض گروی رکھی ہوئی تھی۔ (بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب ما قیل فی درع النبی ) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جو کی روٹی اور کچھ باسی چربی لے گیا اس وقت آپ کی یہ حالت تھی کہ آپ نے اپنی زرہ مدینہ کے ایک یہودی کے پاس گروی رکھی ہوئی تھی اور اس سے اپنی بیویوں کے لیے جو لیے تھے۔ اور میں نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے کہ محمد کے گھر والوں کے پاس کبھی شام کو ایک صاع گیہوں یا غلہ جمع نہیں رہا۔ حالانکہ اس وقت آپ کے پاس نو بیویاں تھیں۔ (بخاری، کتاب البیوع، باب شری النبی النسیئۃ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وراثت کے تین مدعی ان احادیث سے معلوم ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی ترکہ کچھ بھی نہ تھا۔ باقی اموال فے ہی رہ جاتے ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ اختیار دیا تھا کہ آپ اپنی صوابدید کے مطابق ان اموال کو جیسے چاہیں اور جہاں چاہیں صرف کریں۔ ان اموال میں ایک تو فدک کا باغ تھا، دوسرے کچھ خیبر کی زمین اور کچھ زمین مدینہ کی بھی تھی۔ جس کا کوئی مالک نہ تھا اور وہ سرکاری تحویل میں تھی۔ ان اموال میں سے ایک تو آپ اپنی بیویوں کا سالانہ خرچہ رکھ لیتے تھے۔ وہ بھی بڑی کفایت شعاری کے ساتھ۔ کچھ اپنے نادار اقربا میں تقسیم کرتے تھے۔ کچھ جہاد کے اخراجات اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ فرماتے۔ گویا یہ بیت المال کی ملکیت ہوتی تھی۔ یہی وہ اموال تھے جن کے متعلق ورثاء نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ اور پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ہاں دعویٰ کیا تھا اور مدعی تین فریق تھے۔ ایک سیدہ فاطمہ جن کا آیت میراث کی رو سے ٢/١ حصہ بنتا تھا۔ دوسرے آپ کی بیویاں، جن کا ٨/١ حصہ بنتا تھا اور تیسرے آپ کے چچا سیدنا عباس رضی اللہ عنہ جن کا بطور عصبہ باقی یعنی ٨/٣ حصہ بنتا تھا۔ اب ان سے متعلق درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ کی وفات کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اس ترکے سے حصہ مانگا جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو بطور فے عطا فرمائے تھے۔ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ ’’ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ جو کچھ ہم چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ اس بات پر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا ناراض ہو کر چلی گئیں۔ پھر سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا نے اپنی وفات تک ابو بکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ کی اور آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد چھ ماہ زندہ رہیں۔ آپ باغ فدک، خیبر اور مدینہ کی زمینوں سے اپنا حصہ مانگتی تھیں تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے یہ جواب دیا کہ میں کوئی بات چھوڑنے والا نہیں جو آپ کیا کرتے تھے۔ ان اموال کی تقسیم جیسے آپ کیا کرتے تھے۔ میں ویسے ہی کرتا رہوں گا اور میں اس بات سے ڈرتا ہوں کہ آپ کی کوئی بات چھوڑ کر گمراہ نہ ہوجاؤں۔ (بخاری، کتاب الجہاد، باب فرض الخمس) ٢۔ اور ایک دوسری حدیث کے مطابق جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے۔ سیدہ فاطمہ اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہما دونوں نے سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے اموال فے کے ترکہ میں حصہ کا مطالبہ کیا اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہ الگ الگ مواقع ہوں۔ اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں کو وہی جواب دیا جو مندرجہ بالا حدیث میں مذکور ہے۔ (بخاری، کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم) ٣۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیویوں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے پاس بھیجا اور وہ اموال فے میں سے اپنا آٹھواں حصہ مانگتی تھیں۔ میں نے انہیں منع کیا اور کہا’’تمہیں اللہ کا خوف نہیں۔ کیا تم یہ نہیں جانتیں کہ آپ فرمایا کرتے تھے کہ ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں ہوتا ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے۔‘‘ چنانچہ آپ کی بیویاں ترکہ مانگنے سے باز آ گئیں۔ (بخاری کتاب المغازی۔ باب حدیث بنی نضیر ومخرج رسول اللہ الیھم) مندرجہ بالا تین احادیث تو دور صدیقی سے متعلق ہیں۔ اور دور فاروقی میں مدعی صرف دو تھے۔ ایک سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنی زوجہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اور دوسرے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ عصبہ کی حیثیت سے۔ ان دونوں نے اموال فے سے ترکہ کا مطالبہ کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے دلائل دینے کے بعد کہا کہ میں یہ اموال صرف اس شرط پر آپ کے حوالہ کرسکتا ہوں کہ تم ان کے متولی بن کر رہو اور اسی طرح تقسیم کرو جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تقسیم فرمایا کرتے تھے۔ یہ بات ان دونوں نے تسلیم نہ کی۔ پھر دوسری بار گئے تو بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے وہی جواب دیا تو ان دونوں حضرات نے اس مرتبہ تولیت کی شرط قبول کرلی اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ اموال ان کی تحویل میں دے دیئے اور ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ اگر تم نے یہ شرط پوری نہ کی تو میں پھر یہ اموال اپنی تحویل میں لے لوں گا۔ پھر عملاً یہ ہوا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہی بطور متولی ان اموال پر قابض ہوگئے اور سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو نزدیک نہ آنے دیا۔ پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بعد یہ امام حسن رضی اللہ عنہ کے، پھر ان کے بعد امام حسین رضی اللہ عنہ کے، پھر ان کے بعد امام زین العابدین علی بن حسین اور پھر حسن بن حسن (حسن مثنیٰ) دونوں کے قبضے میں رہے اور وہ باری باری اس کا انتظام کرتے رہے۔ پھر زید بن حسن بن علی (ان کے بھائی) کے پاس رہے اور ہر شخص کے پاس اسی طریق سے رہا کہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے (یعنی یہ حضرات متولی بن کر رہے۔ مالک بن کر نہیں رہے) اب ہم ایک طویل حدیث سے اقتباس پیش کرتے ہیں جو ان جملہ امور پر روشنی ڈالتی ہے : فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہی تھا :۔ مالک بن اوس بن حدثان کہتے ہیں کہ مجھے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے بلا بھیجا۔ میں وہاں پہنچا ہی تھا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا غلام یرفا آ کر کہنے لگا کہ حضرات عثمان رضی اللہ عنہ ، عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ ، زبیر رضی اللہ عنہ اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ اور آپ سے ملنے کی اجازت چاہتے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت دے دی۔ وہ آ کر بیٹھے ہی تھے کہ یرفا پھر آیا اور کہنے لگا کہ عباس رضی اللہ عنہ اور علی رضی اللہ عنہ آئے ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں بھی بلا لیا۔ چنانچہ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے کہا : امیر المومنین میرا اور اس شخص کا فیصلہ کر دیجئے۔ یہ دونوں حضرات بنو نضیر کے اموال فے کے بارے میں جھگڑ رہے تھے اور آپس میں گالی گلوچ پر اتر آئے تھے۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی کہنے لگے : امیر المومنین ان کا فیصلہ کر کے انہیں ایک دوسرے سے نجات دلائیے۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ان دونوں سے کہا کہ میں آپ سے اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا تھا کہ ’’ہمارا کوئی وارث نہیں ہوتا۔ ہم جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے؟‘‘ ان دونوں نے کہا 'بے شک' پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فے سے متعلق سورۃ حشر کی آیات پڑھ کر فرمایا، اللہ کی قسم! نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان اموال کو اپنی ذات کے لیے جوڑ نہیں رکھا۔ بلکہ تم لوگوں کو دیا اور بانٹا۔ اسی مال سے آپ اپنی بیویوں کا سال بھر کا خرچ نکالتے اور جو مال بچ جاتا اسے تازیست سامان جنگ اور رفاہ عامہ کے کاموں میں خرچ کرتے رہے۔ پھر سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قائم مقام تھے اسی طرح کرتے رہے۔ حالانکہ تم دونوں اس وقت بھی یہ کہتے تھے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ کی یہ کارروائی ٹھیک نہیں ہے۔ اور اللہ خوب جانتا ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ سچے، راست باز، ٹھیک راستے پر چلنے والے اور حق کے تابع تھے۔ پھر ان کے بعد اب میں ان دونوں کا جانشین ہوں۔ پھر تم دونوں (عباس اور علی رضی اللہ عنہما) میرے پاس آئے۔ اس وقت تم دونوں کی بات ایک اور معاملہ ایک تھا۔ پھر اے عباس! تم اکیلے بھی میرے پاس آئے اور میں نے یہی کہا کہ انبیاء کا مال صدقہ ہوتا ہے۔ پھر میں نے تم دونوں سے کہا کہ میں تمہیں یہ اموال صرف اس شرط پر دیتا ہوں کہ تم اس کی تقسیم ویسے ہی کرو جیسے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ابو بکر رضی اللہ عنہ اور میں کرتے رہے۔ اگر یہ شرط منظور ہے تو ٹھیک ورنہ مجھ سے گفتگو نہ کرو۔ تم نے یہ شرط مان لی تو میں نے یہ اموال تمہارے حوالے کردیے۔ اب تم اور کیا چاہتے ہو؟ اب اگر تم اس مال کے بارے میں جھگڑا کرتے ہو اور تم سے اس مال کا بندوبست نہیں ہوسکتا تو پھر یہ کام میرے سپرد کر دو۔ میں ہی یہ کام سر انجام دیا کروں گا۔ مگر وہ اٹھ کر چلے گئے اور انہوں نے اموال کو واپس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی تحویل میں دینا گوارا نہ کیا اور عملاً ان اموال پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ قابض ہوگئے۔ چنانچہ عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ یہ مال سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں رہا۔ انہوں نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کو اس پر قبضہ نہ کرنے دیا۔ پھر اس کے بعد حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں آیا، پھر حسین بن علی رضی اللہ عنہ کے قبضہ میں، پھر علی بن حسین اور حسن بن حسن دونوں کے قبضہ میں، جو باری باری اس کا انتظام کرتے تھے۔ پھر زید بن حسن کے قبضہ میں رہا۔ اور یہ اموال فی الحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہی رہے۔ (بخاری، کتاب المغازی، باب حدیث بنی نضیر و مخرج رسول اللہ الیھم)