وَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَىٰ فَانكِحُوا مَا طَابَ لَكُم مِّنَ النِّسَاءِ مَثْنَىٰ وَثُلَاثَ وَرُبَاعَ ۖ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلَّا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۚ ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا
اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ یتیم بچیوں (3) (سے شادی کے) معاملہ میں انصاف نہیں کرسکو گے، تو دوسری پسندیدہ دو دو، اور تین تین، اور چار چار، عورتوں سے شادی کرلو، اور اگر تمہیں ڈر ہو کہ (ان کے درمیان) انصاف (4) نہ کرسکو گے تو ایک پر اکتفا کرو، یا لونڈی سے اپنی ضرورت پوری کرلو، یہ اس اعتبار سے زیادہ مناسب ہے کہ تم بے انصافی کے مرتکب نہیں ہوگے۔
[٥] یتیم لڑکیوں سے ناانصافی :۔ اور زیادہ حق تلفی یتیم لڑکیوں کی ہوتی تھی۔ اب یہ تو ظاہر ہے کہ یتیم لڑکی کا ولی کوئی قریبی رشتہ دار ہی ہوسکتا ہے اور وراثت میں بھی ولی اور یتیم لڑکی کا اشتراک ممکن ہے۔ اب لڑکی کے جوان ہونے پر تین صورتیں پیش آ سکتی تھیں : ایک یہ کہ لڑکی خوبصورت نہ ہو اور ولی کے دل میں اس کی الفت بھی نہ ہو اور وہ محض اس طمع سے اس سے نکاح کرلے کہ اس کا ورثہ کا مال ہاتھ سے نکل جائے گا۔ اس طرح کا نکاح کرنا بھی اس لڑکی پر ظلم ہے۔ دوسرے یہ کہ لڑکی خوبصورت بھی ہو اور صاحب جائیداد بھی ہو، اس صورت میں ولی اس سے نکاح کرلیتا مگر جتنا حق مہر اسے دوسروں سے مل سکتا تھا اسے اس سے بہت کم دیتا اور دوسرا کوئی شخص ولی کی موجودگی میں اس سے نکاح کر بھی نہیں سکتا تھا۔ جبکہ ولی خود اس کا خواہش مند ہو۔ یہ بھی یتیم لڑکیوں کے حقوق پر ڈاکہ کی ایک صورت تھی۔ یہی ناانصافیاں تھیں جن کا ذکر اللہ تعالیٰ نے یہاں بیان فرمایا ہے۔ اس آیت کے شان نزول کے بارے میں درج ذیل احادیث ملاحظہ فرمائیے : ١۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص ایک یتیم لڑکی کی پرورش کرتا تھا اس نے صرف اس غرض سے اس کے ساتھ نکاح کرلیا کہ وہ ایک کھجور کے درخت کی مالکہ تھی ورنہ اس کے دل میں اس لڑکی کی کوئی الفت نہ تھی۔ اس کے حق میں یہ آیت اتری۔ اس حدیث کے ایک راوی ابن جریج کہتے ہیں کہ میں سمجھتا ہوں کہ وہ لڑکی اس درخت اور دوسرے مال اسباب میں اس مرد کی حصہ دار تھی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا :بھانجے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ایک یتیم لڑکی اپنے ولی کی پرورش میں ہو اور ترکہ کی رو سے اس کی جائیداد میں حصہ دار ہو اور ولی کو اس کا مال اور جمال تو پسند آئے مگر وہ اسے اتنا مہر دینے پر آمادہ نہ ہو جتنا اسے دوسرے لوگ دیتے ہیں تو وہ اس سے نکاح نہ کرے۔ ہاں اگر اتنا ہی دے دے تو پھر نکاح کرسکتا ہے۔ ورنہ وہ ان کے علاوہ دوسری عورتوں سے جو انہیں پسند ہو نکاح کرلے۔ اور چار تک ایسی بیویوں کی اجازت دی گئی۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) اور تیسری صورت یہ کہ لڑکی نہ خوبصورت ہو اور نہ صاحب مال ہو اس صورت میں ولی کو اس سے نکاح کرنے میں کوئی دلچسپی نہ ہوتی تھی۔ [٦] چار تک بیویوں سے نکاح کی اجازت :۔ یتیم لڑکیوں کے سرپرستوں کو ان دونوں ناانصافیوں سے روکا گیا اور فرمایا کہ اگر تم صاحب جمال لڑکی کا اتنا مہر ادا کرسکو جتنا باہر سے مل سکتا ہے تو تم اس سے نکاح کرسکتے ہو ورنہ اور تھوڑی عورتیں ہیں ان میں سے اپنی حسب پسند چار تک بیویاں کرسکتے ہو۔ مگر اس شرط کے ساتھ کہ ان میں مساوات کا لحاظ رکھو اور اگر یہ کام نہ کرسکو تو پھر ایک بیوی پر اکتفا کرو۔ یا پھر ان کنیزوں پر جو تمہارے ملک میں ہوں۔ مندرجہ ذیل دو احادیث بھی ان احکام پر روشنی ڈالتی ہیں۔ ١۔ چار سے زیادہ بیویاں :۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ غیلان بن سلمہ ثقفی رضی اللہ عنہ جب اسلام لائے تو ان کے نکاح میں دس عورتیں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا :’’ان میں سے کوئی سی چار پسند کرلو (باقی چھوڑ دو۔)‘‘ (ابن ماجہ۔ کتاب النکاح۔ باب الرجل یسلم و عندہ أکثر من أربع نسوۃ) ٢۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آپ جب سفر کا ارادہ کرتے تو اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ ڈالتے۔ جس کے نام قرعہ نکلتا اسے اپنے ہمراہ لے جاتے اور آپ ہر بیوی کی باری ایک دن اور ایک رات مقرر کرتے تھے۔ (بخاری۔ کتاب الہبہ۔ باب ھبۃ المرأۃ لغیر زوجھا) البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاملہ بالکل الگ ہے کیونکہ آپ کی ازواج مطہرات امت کی مائیں ہیں جو کسی دوسری جگہ نکاح نہیں کرسکتی تھیں۔ لہٰذا جتنے نکاح آپ کرچکے تھے وہ سب آپ کے لیے حلال اور جائز قرار دیئے گئے۔ اس آیت سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا کہ اسلام میں تعدد ازواج کی کوئی حد نہیں اور قرآن میں جو دو دو تین تین، چار چار کے الفاظ آئے ہیں یہ بطور محاورہ زبان ہیں یعنی دو دو کی بھی اجازت ہے، تین تین کی بھی اور چار چار کی بھی، اور اسی طرح پانچ پانچ اور چھ چھ کی بھی فصاعداً۔ یہ استدلال دو وجہ سے غلط ہے : ایک یہ کہ اگر اجازت عام ہی مقصود ہوتی تو صرف ﴿مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ ﴾کہہ دینا ہی کافی تھا۔ چار تک تعین کرنے کی قطعاً ضرورت نہ تھی اور دوسرے یہ کہ سنت نے چار تک حد کی تعیین کردی تو پھر اس کے بعد کسی مسلمان کا شیوہ نہیں ہوسکتا کہ وہ کوئی دوسری بات کرے۔ جیسے کہ اوپر سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔ یہ لوگ تو وہ تھے جو افراط کی طرف گئے اور کچھ لوگ تفریط کی طرف چلے گئے کہ عام اصول یہی ہے کہ صرف ایک عورت سے شادی کی جائے، ان کا استدلال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تمہیں خدشہ ہو کہ ان میں انصاف نہ کرسکو گے تو پھر ایک ہی کافی ہے۔ پھر اسی سورۃ کی آیت نمبر ١٢٩ میں فرمایا کہ ’’اگر تم چاہو بھی کہ اپنی بیویوں کے درمیان انصاف کرو تو تم ایسا نہ کرسکو گے۔‘‘ گویا آیت نمبر ٣ میں تعدد ازواج کی جو مشروط اجازت دی گئی تھی وہ اس آیت کی رو سے یکسر ختم کردی گئی۔ لہٰذا اصل یہی ہے کہ بیوی ایک ہی ہونی چاہیے۔ نظریہ یک زوجگی کی دلیل اور اس کا رد :۔ یہ استدلال اس لحاظ سے غلط ہے کہ اسی سورت کی آیت ١٢٩ میں آگے یوں مذکور ہے ’’لہٰذا اتنا تو کرو کہ بالکل ایک ہی طرف نہ جھک جاؤ اور دوسری کو لٹکتا چھوڑ دو۔‘‘ اور جن باتوں کی طرف عدم انصاف کا اشارہ ہے وہ یہ ہیں کہ مثلاً ایک بیوی جوان ہے دوسری بوڑھی ہے۔ یا ایک خوبصورت ہے اور دوسری بدصورت یا قبول صورت ہے۔ یا ایک کنواری ہے دوسری ثیب (شوہر دیدہ) ہے۔ یا ایک خوش مزاج ہے اور دوسری تلخ مزاج یا بدمزاج ہے۔ یا ایک ذہین و فطین ہے اور دوسری بالکل جاہل اور کند ذہن ہے۔ اب یہ تو واضح بات ہے کہ اگرچہ ان صفات میں بیوی کا اپنا عمل دخل کچھ نہیں ہوتا، تاہم یہ باتیں خاوند کے لیے میلان یا عدم میلان کا سبب ضرور بن جاتی ہیں۔ اور یہ فطری امر ہے اسی قسم کی ناانصافی کا یہاں ذکر ہے۔ اور چونکہ اس قسم کے میلان یا عدم میلان میں انسان کا اپنا کچھ اختیار نہیں ہوتا لہٰذا ایسے امور پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کوئی گرفت اور مواخذہ نہیں۔ خاوند سے انصاف کا مطالبہ صرف ان باتوں میں ہے جو اس کے اختیار میں ہیں۔ جیسے نان و نفقہ، اس کی ضروریات کا خیال رکھنا اور شب بسری کے سلسلہ میں باری مقرر کرنا وغیرہ۔ کون نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنی بیویوں میں سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ محبت تھی اور اس کی وجوہ یہ تھیں کہ آپ کنواری تھیں، نو عمر تھیں، ذہین و فطین تھیں اور خوش شکل تھیں۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی فرمایا کرتے تھے کہ ’’یا اللہ ! جن باتوں میں مجھے اختیار ہے ان میں سب بیویوں سے میں یکساں سلوک کرتا ہوں اور جو باتیں میرے اختیار میں نہیں تو وہ مجھے معاف فرما دے۔‘‘ تفریط کی طرف جانے والے لوگ دراصل تہذیب مغرب سے سخت مرعوب ہیں جن کے ہاں صرف ایک ہی بیوی کی اجازت ہے آج کل اس طبقہ کی نمائندگی غلام احمد پرویز صاحب فرما رہے ہیں۔ انہوں نے اس آیت میں یتامی کا لفظ دیکھ کر تعدد ازواج کی اجازت کو ہنگامی حالات اور جنگ سے متعلق کردیا چنانچہ 'طاہرہ کے نام خطوط' کے صفحہ ٣١٥ پر فرماتے ہیں :’’مطلب صاف ہے کہ اگر کسی ہنگامی حالت مثلاً جنگ کے بعد جب جوان مرد بڑی تعداد میں ضائع ہوچکے ہوں اور ایسی صورت پیدا ہوجائے کہ معاشرہ میں یتیم بچے اور لاوارث جوان عورتیں شوہر کے بغیر رہ جائیں تو اس کا کیا علاج کیا جائے۔ اس ہنگامی صورت سے عہدہ برآ ہونے کے لیے اس کی اجازت دی جاتی ہے کہ ایک بیوی کے قانون میں عارضی طور پر لچک پیدا کرلی جائے۔‘‘ پھر آگے چل کر ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَاۗءِ مَثْنٰی وَثُلٰثَ وَرُبٰعَ ﴾کے معنی بیان فرماتے ہیں کہ ان میں سے ان عورتوں سے جو تمہیں پسند ہوں نکاح کرلو۔ اس طرح انہیں (اور بیواؤں کی صورت میں ان کے ساتھ ان کے بچوں کو بھی) خاندان کے اندر جذب کرلو۔ یہی ان سے منصفانہ سلوک ہے۔ یہ مسئلہ اگر دو دو بیویاں کرنے سے حل ہوجائے تو دو دو کرلو اور اگر تین تین سے ہو تو تین تین اور چار چار سے ہو تو چار چار۔۔ یہ تو رہا اجتماعی فیصلہ۔ (طاہرہ کے نام خطوط : ص ٣١٦) اب یہاں پہلا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ہنگامی حالات اور جنگ کی قید آ کہاں سے گئی؟ کیا ہنگامی حالات یا جنگ کے بغیر کسی معاشرہ میں یتیموں کا وجود ناممکن ہے؟ یا قرآن کے کسی لفظ سے ہنگامی حالات یا جنگ کا اشارہ تک بھی ملتا ہے؟ خیر اس بات کو بھی جانے دیجئے، ہم یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ پرویز صاحب بجا فرما رہے ہیں تو اس کے مطابق صرف جنگ احد ہی ایسی جنگ قرار دی جا سکتی ہے جو پرویز صاحب کے نظریہ کا مصداق بن سکے۔ کیونکہ اس میں ستر مسلمان شہید ہوگئے تھے۔ دوسری کسی بھی جنگ میں مسلمانوں کا اتنا زیادہ جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس جنگ میں شریک ہونے والے مسلمانوں کی تعداد سات سو تھی اور منافقین کو بھی مسلمانوں میں شامل سمجھا جائے تو ایک ہزار تھی۔ اور یہ وہ تعداد تھی جو میدان جنگ کے لیے نکل کھڑے ہوئے تھے ورنہ سب مسلمانوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ تھی۔ اور ان میں سے ستر مسلمانوں کے شہید ہونے سے ستر عورتیں بیوہ ہوگئیں (کیونکہ پرویز صاحب کے نظریہ کے مطابق اصل صرف یک زوجگی ہے) اب ان میں ان کی یتیم اولاد یعنی جوان لڑکیاں۔۔ اس تعداد کو چار گنا کر دیجئے۔۔ یعنی تقریباً ٣٠٠ عورتوں کی شادی کا مسئلہ تھا اور بقول پرویز صاحب چونکہ یہ اجتماعی مسئلہ تھا لہٰذا ڈیڑھ ہزار مسلمانوں میں سے صرف تین سو مسلمانوں کے مزید ایک بیوی کرلینے سے یہ مسئلہ حل ہوسکتا تھا اور یہ کام ہو بھی حکومتی سطح پر رہا تھا۔ پھر جب سارے مسلمانوں کو دو دو بھی حصہ میں نہ آ سکیں تو تین تین اور چار چار عورتوں سے نکاح کے کیا معنی؟ اور یہ اجتماعی فیصلہ والی بات بھی عجیب قسم کی دھاندلی ہے۔ قرآن کہہ رہا ہے ﴿فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ ﴾یعنی مسلمان انفرادی طور پر جس جس عورت کو پسند کریں اس سے نکاح کرلیں اور آپ اسے اجتماعی فیصلہ قرار دے رہے ہیں۔ سو یہ ہے پرویز صاحب کی قرآنی بصیرت، جو دراصل اس مغربی تخیل کی پیداوار ہے جس میں ایک سے زائد بیویوں سے نکاح کو مذموم فعل سمجھا جاتا ہے۔ بات بالکل صاف تھی کہ اسلام نے حکم تو ایک بیوی سے نکاح کرلینے کا دیا ہے۔ البتہ اجازت چار بیویوں تک ہے۔ تعدد ازواج اجازت ہے حکم نہیں۔ اور اس اجازت کی وجہ یہ ہے کہ قرآن ہر ایک کے لیے اور ہر دور کے لیے تاقیامت دستور حیات ہے۔ لہٰذا کسی بھی ملک اور کسی بھی دور کے لوگ اپنے اپنے رسم و رواج یا ضروریات کے مطابق اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ مثلاً ہمارے ملک پاکستان میں عورت کی علیحدہ ملکیت کا تصور نہیں۔ مرد اگر گھر والا ہے تو عورت گھر والی ہے لہٰذا یہاں اگر کوئی دو بیویاں کرلے تو بے شمار پریشان کن مسائل اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ لہٰذا یہاں اگر کوئی دوسری یا تیسری بیوی کرتا ہے تو یقینا کسی خاص ضرورت کے تحت کرتا ہے اور ملک کی ٩٥ فیصد آبادی اس اجازت سے فائدہ نہیں اٹھاتی اور ایک ہی بیوی کو درست سمجھتی ہے۔ اس کے برعکس عرب میں آج بھی بیوی کی الگ ملکیت کا تصور موجود ہے۔ لہٰذا وہاں چار تک بیویاں کرنے پر بھی بیویوں کی باہمی رقابت اور خاوند کو پریشان کرنے والے مسائل بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔ پھر وہاں طلاق کو بھی کوئی ایسا جرم نہیں سمجھا جاتا جس سے دو خاندانوں میں ایسی عداوت ٹھن جائے جیسی پاکستان میں ٹھن جاتی ہے۔ لہٰذا وہاں نصف سے زیادہ آبادی قرآن کی اس اجازت سے فائدہ اٹھا رہی ہے۔ لہٰذا شرعی لحاظ سے نہ پاکستان کے رواج کو مورد الزام ٹھہرایا جا سکتا ہے اور نہ عرب کے رواج کو۔ ایک سے زیادہ بیویوں کو مذموم فعل سمجھنے کے اس مغربی تخیل کی بنیادیں دو ہیں : پہلی بنیاد فحاشی، بدکاری، داشتائیں رکھنے کی عام اجازت اور جنسی آوارگی ہے جسے مغرب میں مذموم فعل کی بجائے عین جائز بلکہ مستحسن فعل سمجھا جاتا ہے۔ اور دوسری بنیاد مادیت پرستی ہے۔ جس میں ہر شخص یہ تو چاہتا ہے کہ اس کا معیار زندگی بلند ہو اور اولاد کو اعلیٰ تعلیم دلائے مگر ان باتوں پر چونکہ بے پناہ اخراجات اٹھتے ہیں جو ہر انسان پورے نہیں کرسکتا، لہٰذا وہ اس بات کو ترجیح دیتا ہے کہ اس کے ہاں اولاد ہی نہ ہو یا کم سے کم ہو۔ اور ظاہر ہے کہ ایسا معاشرہ تو ایک بیوی بھی بمشکل برداشت کرتا ہے اور وہ بہتر یہی سمجھتا ہے کہ بیوی ایک بھی نہ ہو اور سفاح یا بدکاری سے ہی کام چلتا رہے۔ لیکن اسلام سب سے زیادہ زور ہی مرد اور عورت کی عفت پر دیتا ہے اور ہر طرح کی فحاشی کو مذموم فعل قرار دیتا ہے اور معیار زندگی کو بلند کرنے کی بجائے سادہ زندگی گزارنے کی تعلیم دیتا ہے اسی لیے اس نے اقتضاء ات اور حالات کے مطابق چار بیویوں تک کی اجازت دی ہے۔ اب بتائیے کہ اس مغربی تخیل اور اسلامی تخیل میں مطابقت کی کوئی صورت پیدا کی جا سکتی ہے؟۔ نکاح ثانی کے لئے پہلی بیوی سے اجازت لینے کا قانون :۔ اسی مغربی تخیل سے اور بعض 'مہذب خواتین' کے مطالبہ سے متاثر ہو کر صدر ایوب کے دور میں پاکستان میں مسلم عائلی قوانین کا آرڈیننس ١٩٦١ ء پاس ہوا۔ جس میں ایک شق یہ بھی تھی کہ اگر مرد شادی شدہ ہو اور دوسری شادی کرنا چاہتا ہو تو وہ سب سے پہلے اپنی پہلی بیوی سے اس دوسری شادی کی رضامندی اور اجازت تحریراً حاصل کرے، پھر ثالثی کونسل سے اجازت نامہ حاصل کرے اور اگر ثالثی کونسل بھی اجازت دے تو تب ہی وہ دوسری شادی کرسکتا ہے۔ جیسا کہ اس آرڈیننس کی شق نمبر ٢١ اور ٢٢ سے واضح ہوتا ہے۔ گویا حکومت نے نکاح ثانی پر ایسی پابندیاں لگا دیں کہ کوئی شخص کسی انتہائی مجبوری کے بغیر دوسرے نکاح کی بات سوچ بھی نہ سکے اور عملاً اس اجازت کو ختم کردیا جو اللہ تعالیٰ نے مرد کو دی تھی۔ کیونکہ کوئی عورت یہ گوارا نہیں کرسکتی کہ اس کے گھر میں اس کی سوکن آ جائے۔ اب جو لوگ دوسری شادی کرنا چاہتے تھے اور پہلی بیوی کے رویہ سے نالاں تھے یا کسی اور مقصد کے لیے دوسری شادی ضروری سمجھتے تھے انہوں نے اس غیر فطری پابندی کا آسان حل یہ سوچا کہ پہلی بیوی کو طلاق دے کر رخصت کردیا جائے اور بعد میں آزادی سے دوسری شادی کرلی جائے۔ اس طرح جو قانون عورتوں کے حقوق کی محافظت کے لیے بنایا گیا تھا وہ خود انہی کی پریشانی کا موجب بن گیا۔ کیونکہ اللہ کے احکام کی ایسی غیر فطری تاویل اللہ کی آیات کا مذاق اڑانے کے مترادف ہے۔ اور ایسے معاشرہ کو اس کی سزا مل کے رہتی ہے۔ ایک عورت چار اور چار شوہر :۔ پھر کچھ دریدہ دہن مغرب زدہ آزاد خیال عورتوں نے یہ اعتراض بھی جڑ دیا کہ یہ بھلا کہاں کا انصاف ہے کہ مرد تو چار چار عورتوں سے شادی کرلے اور عورت صرف ایک ہی مرد پر اکتفا کرے؟ اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسا اعتراض کوئی ایسی حیا باختہ عورت ہی کرسکتی ہے جو یہ چاہتی ہے کہ اسے بھی بیک وقت کم از کم چار مردوں تک سے نکاح کی اجازت ہونی چاہیے تو اس کا جواب یہ ہے کہ جنسی خواہش جیسے انسانوں میں ہوتی ہے ویسے ہی حیوانوں میں بھی ہوتی ہے۔ اور مرد کو تو چار بیویوں کی اجازت ہے جبکہ ہم گوالوں کے ہاں دیکھتے ہیں کہ اگر ایک گوالے نے بیس بھینسیں رکھی ہوئی ہیں تو بھینسا صرف ایک ہی ہوتا ہے۔ کیا کبھی ایسا بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی گوالے نے بھینسے تو بیس رکھے ہوں اور بھینس صرف ایک ہی ہو خود ہی غور فرما لیجئے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ایسا کیوں نہیں ہوتا ؟ بات دراصل یہ ہے کہ مرد تو اپنی جوانی کے ایام میں اپنی جنسی خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر وقت مستعد ہوتا ہے مگر عورت کی ہرگز یہ کیفیت نہیں ہوتی۔ ہر ماہ حیض کے ایام میں اسے اس فعل سے طبعاً نفرت ہوتی ہے۔ پھر مرد تو صحبت کے کام سے دو تین منٹ میں فارغ ہوجاتا ہے اور اس سے آگے اولاد کی پیدائش میں کچھ حصہ نہیں ہوتا۔ جبکہ عورت کو حمل قرار پا جائے تو پورے ایام حمل میں، پھر اس کے بعد رضاعت کے ایام میں بھی وہ طبعاً اس فعل کی طرف راغب نہیں ہوتی۔ البتہ اپنے خاوند کی محبت اور اصرار کی وجہ سے اس کام پر آمادہ ہوجائے تو اور بات ہے اور بسا اوقات عورت انکار بھی کردیتی ہے۔ لیکن مرد اتنی مدت صبر نہیں کرسکتا۔ اب اس کے سامنے دو ہی راستے ہوتے ہیں۔ یا تو اور نکاح کرے یا پھر فحاشی کی طرف مائل ہو۔ اور اسلام نے پہلی صورت کو ہی اختیار کیا ہے۔ پھر مرد اگر چار بیویاں بھی رکھ لے تو اس سے نہ نسب میں اختلاط پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی میراث کے مسائل میں کوئی الجھن پیش آتی ہے۔ جبکہ عورت اگر دو مردوں سے بھی اختلاط رکھے تو اس سے نسب بھی مشکوک ہوجاتا ہے۔ کیونکہ نسب کا تعلق مرد سے ہے، عورت سے نہیں۔ اور میراث کے مسائل میں بھی پیچیدگیاں پیدا ہوجاتی ہیں۔ اب ان باتوں کو درخور اعتناء نہ سمجھئے اور صرف اس بات پر غور فرمائیے کہ اگر عورت کو چار شوہروں کی اجازت دی جائے تو وہ رہے گی کس کے گھر میں؟ اور کون اس کے نان و نفقہ اور اس کی اولاد کے اخراجات کا ذمہ دار بنے گا ؟ پھر کیا ایک شوہر یہ برداشت کرلے گا کہ اس کی بیوی علیٰ الاعلان دوسروں کے پاس بھی جاتی رہے۔ بلکہ میں تو کہتا ہوں کہ آپ شریعت کو بالائے طاق رکھئے اور چار شوہروں والی بات کا تجربہ کر کے دیکھئے کہ اس سے کس طرح ایک معاشرہ چند ہی سالوں میں تباہ و برباد ہوجاتا ہے۔ کوئی اسلام سے انکار کرتا ہے تو کرے مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ شرعی احکام انسانی مصالح پر ہی مبنی ہوتے ہیں۔ اب اس مسئلہ پر ایک اور پہلو سے غور فرمائیے۔ اس حقیقت سے تو سب لوگ آشنا ہیں کہ جوانی کے ایام میں ہر شخص میں شہوانی جذبات اپنی انتہا کو پہنچے ہوئے ہوتے ہیں اور پھر نوجوان اور تندرست مرد اس قابل ہوتا ہے کہ کم از کم ایک دن میں ایک بار جماع کرے تب بھی اس کی صحت خراب نہ ہو۔ اور اگر اس جذبہ شہوانی کو طویل مدت تک دبائے رکھا جائے تو اس سے انسان کے بیمار پڑجانے کا خدشہ ہوتا ہے۔ ان حالات میں انسان کے سامنے تین ہی راستے ہوتے ہیں : رہبانیت کے نتائج :۔ پہلا یہ کہ اس جذبہ کو مختلف تدبیروں سے دبا دیا جائے۔ خواہ یہ خصی ہونے سے ہو یا انتہائی قلیل خوری سے۔ جیسا کہ جوگی، سادھو یا رہبان قسم کے لوگ کرتے ہیں۔ اس طریق کے غیر فطری ہونے میں کوئی شک و شبہ نہیں۔ اور اس کا سب سے بڑا نقصان نسل انسانی کا انقطاع ہے اور اس کا دوسرا نقصان یہ ہے کہ فحاشی چور دروازے تلاش کرنے لگتی ہے۔ اس قسم کے لوگ تقدس کے پردوں میں زنا کاری کے مرتکب ہوتے ہیں۔ عیسائی مذہب میں اس کا رواج عام تھا۔ ایسے درویش قسم کے مرد اور عورتیں جو ساری عمر جنسی جھمیلوں سے آزاد رہ کر کلیسا کی خدمت کے لیے مامور ہوتے تھے ان میں خفیہ طور پر حرام کاری کا وسیع سلسلہ پایا جاتا تھا اور حرامی بچوں کو مختلف طریقوں سے ٹھکانے لگا دیا جاتا تھا اور ایسے بے شمار واقعات تاریخ کے صفحات پر آج بھی ثبت ہیں۔ دوسرا راستہ یہ ہے کہ شہوانی خواہشات کو بلاجھجک کھلے بندوں پورا کیا جائے۔ اہل مغرب کے ادیب قسم کے لوگوں نے نکاح کی پابندیوں کو ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ عرصہ اس مہم پر صرف کیا اور بالآخر وہ ایسی فحاشی کو عام کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ ان لوگوں کا طرز استدلال یہ تھا کہ انسان کی تین ضرورتیں لابدی ہیں : بھوک، نیند اور جنسی ملاپ۔ ان کو اگر پورا نہ کیا جائے تو انسان کی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نیند تو بہرحال اپنا حق وصول کر ہی لیتی ہے۔ بھوک کا معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ بھوک کے وقت گھر پر نہیں تو بازار سے، ہوٹل سے، عزیز و اقارب سے، جہاں بھی وہ ہو اپنی یہ ضرورت پوری کر ہی لیتا ہے اور اس کے لیے وہ محض اپنے گھر کا محتاج نہیں ہوتا۔ تو جیسی ضرورت غذائی بھوک کی ہے ویسی ہی جنسی بھوک کی بھی ہے لہٰذا صرف اپنی بیوی سے ہی ملاپ کا تصور غیر فطری ہے۔ نیز اگر کسی کو بیوی بھی میسر نہ آسکے تو وہ کیا کرے؟ کیا جنسی آوارگی ایک لابدی ضرورت ہے :۔ اس استدلال میں غذائی بھوک اور جنسی بھوک کو ایک ہی سطح پر رکھ کر پیش کیا گیا ہے حالانکہ یہ بات اصولی طور پر غلط ہے اور اس کی وجوہ درج ذیل ہیں : ١۔ غذائی بھوک کا اس کے سوا کوئی علاج نہیں کہ پیٹ کا تنور غذا سے پر کیا جائے لیکن جنسی بھوک کا علاج فطرت نے از خود کردیا ہے۔ جب انسان میں مادہ منویہ زیادہ ہوجائے تو بذریعہ احتلام یہ مادہ خارج ہوجاتا ہے اور یہ جنسی بھوک از خود کم ہوتی رہتی ہے۔ ٢۔ جنسی بھوک کو کم خوری اور روزہ رکھنے سے بھی کم کیا جا سکتا ہے لیکن غذائی بھوک کا شکم پروری کے سوا کوئی علاج نہیں ہوتا۔ ٣۔ غذائی بھوک از خود پیدا ہوتی ہے جبکہ جنسی بھوک کو بہت حد تک خود پیدا کیا جاتا ہے۔ آپ خود کو شہوانی خیالات اور ماحول سے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اگر آپ شہوانی جذبات کے ماحول میں مستغرق رہنے کے بجائے دوسرے مفید کاموں میں اپنے آپ کو مصروف رکھیں گے تو یہ جنسی بھوک بیدار ہی نہ ہوگی۔ اور اگر شہوانی خیالات اور ماحول میں مستغرق رہیں گے، فحش قسم کا لٹریچر اور ناول پڑھیں گے، سنیما اور ٹیلی ویژن پر رقص و سرود کے پروگرام دیکھیں گے، زہد شکن قسم کے گانے سنیں گے اور جنسی جذبات کو ہیجان میں رکھنے والے ماحول میں رہیں گے تو یہ جنسی بھوک اپنے عروج پر پہنچ جائے گی۔ گویا اس جنسی بھوک کو پیدا کرنا نہ کرنا، اعتدال پر رکھنا اور پروان چڑھانا بہت حد تک انسان کے اپنے اختیار میں ہوتا ہے جبکہ غذائی بھوک پر کنٹرول انسان کے اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ہمارے اس دعویٰ کی تصدیق کے لیے کیا یہ بات کافی نہیں کہ آج کے معاشرہ میں بھی آپ کو ایسے تعلیم حاصل کرنے والے نوجوان اور عفیف بچے کافی تعداد میں مل سکتے ہیں جن کی بیس پچیس برس کی عمر تک شادی نہیں ہوتی اور ان کی زندگی بےداغ ہوتی ہے۔ حالانکہ جنسی جذبات دس گیارہ سال کی عمر کے بعد بیدار ہونا شروع ہوجاتے ہیں۔ اعتدال کا راستہ :۔ اور تیسرا راستہ دونوں کے درمیان اعتدال کا ہے جو اسلام نے اختیار کیا ہے کہ شہوانی جذبہ چونکہ فطری جذبہ ہے لہٰذا اسے روکنا غیر فطری بات ہے۔ تاہم اسے ایسا بے لگام بھی نہیں چھوڑا گیا جس سے معاشرتی بنیادوں کے انجر پنجر ہی ہل جائیں بلکہ اسے نکاح کی شرائط سے پابند بنا دیا گیا ہے۔ اور یہ بات تو ہم پہلے واضح کرچکے ہیں کہ شہوانی ہیجان مرد میں اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ بسا اوقات ایک بیوی اس کا ساتھ نہیں دے سکتی۔ لہٰذا فحاشی اور بے حیائی سے اجتناب کے لیے تعدد ازواج ضروری تھا اور یہی راستہ فطری اور اسلامی ہے اور اسی راستہ کو اکثر انبیائے کرام نے اختیار کیا ہے جو مختلف ادوار میں انسانی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ اور اس سے ان لوگوں کے نظریہ کی تردید بھی ہوجاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ اسلام میں اصل حکم صرف ایک عورت سے نکاح کا ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ معاشرہ کا ایک نہایت اہم اور بنیادی مسئلہ ہے لہٰذا اگر اسلام یک زوجگی کا قائل ہوتا تو اس کے متعلق نہایت واضح اور صریح حکم کا آنا لابدی تھا اس لیے کہ عرب میں تعدد ازواج کا رواج اس قدر زیادہ تھا کہ اسلام کو اس میں تحدید کرنا پڑی۔ [٦۔ ١] کنیزوں سے تمتع کی شرائط کے لیے اسی سورۃ کا حاشیہ نمبر ٤٠ ملاحظہ فرمائیے۔