سورة الرحمن - آیت 33

يَا مَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْإِنسِ إِنِ اسْتَطَعْتُمْ أَن تَنفُذُوا مِنْ أَقْطَارِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ فَانفُذُوا ۚ لَا تَنفُذُونَ إِلَّا بِسُلْطَانٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اے جنوں اور انسانوں کے گروہ ! اگر تم آسمانوں اور زمین کے کناروں سے بھاگ (١٥) سکتے ہو، تو بھاگ جاؤ، مگر تم بغیر قوت و غلبہ کے نہیں بھاگ سکو گے

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٢] نفذ کا لغوی مفہوم نفذ بمعنی آر پار نکل جانا۔ جیسے لوہے کی سلاخ کے ایک سرے کو آگ پر گرم کیا جائے تو تھوڑی دیر بعد حرارت دوسرے سرے تک از خود جا پہنچتی ہے۔ اور نفاذ بمعنی قوت سے کسی چیز کا اجراء ہونا، جیسے کہتے ہیں کہ اس ملک میں کل سے فلاں فلاں قانون نافذ ہوچکا ہے اور بمعنی چیز کا بسرعت داخل ہونا اور آر پار ہوجانا۔ جیسے برقی رو آر پار نکل جاتی ہے۔ [٢٣] سُلْطٰنٍ بمعنی غلبہ اور شدید قوت بھی اور اتھارٹی لیٹر یا پروانۂ راہداری بھی۔ اب اگر اس آیت کا اطلاق اس مادی دنیا پر کیا جائے، تو مطلب یہ ہوگا کہ زمین و آسمان کے کناروں تک پہنچنے کے لیے انتہائی قوت کی ضرورت ہے، جیسے انسان چاند پر، جو زمین کا سب سے قریبی سیارچہ ہے، پہنچنے میں کامیاب ہوا ہے اور اس کے لیے انتہائی قوت اور بل بوتے کی ضرورت ہے۔ اور اتنا بل بوتا تم میں کبھی نہیں آسکتا کہ تم ﴿ اَقْـطَار السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ ﴾کو پھاند سکو۔ اور اگر تم چاہو تو زور لگا کے دیکھ سکتے ہو۔ اور اگر اس آیت کا ربط سابقہ آیت یعنی حساب کتاب سے ملایا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ حساب کتاب اور اللہ کی گرفت سے تم میں سے کوئی شخص بھی ادھر ادھر بھاگ کر بچ نہیں سکتا الا یہ کہ کسی کو جنت کا پروانہ مل جائے۔ اس صورت میں اسے بھاگنے کی ضرورت ہی نہ رہے گی۔