اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ
قیامت قریب (١) آگئی، اور چاند پھٹ گیا
[١] ایک دفعہ رسول للہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منیٰ میں تشریف فرما تھے کفار مکہ بھی وہاں موجود تھے۔ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کسی نشانی کا مطالبہ کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : آسمان کی طرف دیکھو، اچانک چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا جیسا کہ درج ذیل احادیث سے واضح ہے : ١۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں چاند پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا۔ ایک ٹکڑا پہاڑ کے اوپر رہا اور دوسرا نیچے آگیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (ان لوگوں سے جو اس وقت موجود تھے) فرمایا : ’’دیکھو گواہ رہنا‘‘ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ٢۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں چاند پھٹا تھا۔ (حوالہ ایضاً) ٣۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مکہ کے کافروں نے آپ سے کہا کہ کوئی نشانی دکھاؤ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں چاند کا پھٹنا دکھادیا۔ (حوالہ ایضاً) آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ قیامت اور انشقاق قمر کا باہمی تعلق یہ ہے کہ انشقاق قمر قرب قیامت کی ایک نشانی ہے جو واقع ہوچکی لہٰذا اسے بس اب قریب ہی سمجھو۔ جب کفار نے اپنی آنکھوں سے یہ معجزہ دیکھ لیا تو کہنے لگے کہ یا تو چاند پر جادو کردیا گیا ہے یا ہماری نظروں پر جو ہمیں ایسا نظر آنے لگا ہے۔ اس حیرانی میں ایک شخص نے کہا کہ اگر ہماری نظر بندی کردی گئی ہے تو آس پاس کے لوگوں سے پوچھ لو۔ چنانچہ آس پاس کے لوگوں نے اس کی تصدیق کردی مگر یہ کافر اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آئے۔ اس آیت پر منکرین معجزات کئی طرح کے اعتراضات کرتے ہیں۔ پہلا اعتراض معنی کی تاویل سے تعلق رکھتا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت میں صیغہ ماضی کا معنی استقبال میں لیا جائے گا اور معنی یہ ہوگا کہ ’’جب قیامت قریب آجائے گی اور چاند پھٹ جائے گا‘‘ جیسا کہ ﴿اِذَا الشَّمْسُ کُوِّرَتْ ﴾ اور اس جیسی دوسری آیات کا ترجمہ کیا جاتا ہے۔ ہمارے نزدیک یہ تاویل اور دلیل اس لیے غلط ہے کہ جہاں قیامت کے حوادث کا ذکر آیا ہے۔ مثلاً آسمان پھٹ جائے گا۔ ستارے بے نور ہوجائیں گے اور جھڑنے لگیں گے۔ زمین پر سخت زلزلے آئیں گے۔ پہاڑ اڑتے پھریں گے وغیرہ کا ذکر ہے وہاں ان باتوں کو کفار کے سحر کہنے کا کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی قرآن میں ایسی آیات کے ساتھ سحر کا ذکر آیا ہے۔ کافروں کا چاند کے پھٹنے کو جادو کہنا اور اس پر کفار کی تکرار ہی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ ایک حسی معجزہ تھا جو وقوع پذیر ہوچکا ہے۔ دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اگر یہ واقعہ فی الواقع ظہور میں آچکا ہے تو لوگوں کی ایک کثیر تعداد کو اس کا علم ہونا چاہئے تھا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ واقعہ رات کا ہے دن کا نہیں جب کہ اکثر لوگ سوئے ہوئے ہوتے ہیں۔ پھر اس وقت آدھی دنیا میں تو ویسے سورج نکلا ہوا تھا۔ جہاں یہ واقعہ نظر نہ آسکتا تھا اور باقی آدھی دنیا میں سے بھی صرف ان مقامات پر نظر آسکتا تھا جو منیٰ کے مشرق میں واقع تھے۔ پھر اس واقعہ کا کوئی اعلان بھی نہیں ہوا تھا جیسے آج کل جنتریوں اور اخباروں سے معلوم ہوجاتا ہے یا رصدگاہوں کی طرف سے اعلان کیا جاتا ہے لہٰذا لوگ کوئی اس بات کے منتظر بھی نہیں بیٹھے تھے کہ چاند پھٹے تو ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں۔ علاوہ ازیں ہم دیکھتے ہیں کہ چاند گرہن کئی گھنٹوں تک لگا رہتا ہے۔ لوگوں کو پہلے خبر بھی دی جاچکی ہوتی ہے لیکن لوگوں کی اکثریت چاند گرہن لگنے سے غافل ہوتی ہے اور یہ انشقاق قمر تو صرف ایک لمحہ کے لیے واقع ہوا تھا۔ اسے کون دیکھتا ؟ اور آس پاس کے لوگوں نے شہادت دے ہی دی تھی۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ ایسے اہم واقعہ کا تاریخ میں بھی ذکر ہونا چاہئے تھا۔ اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔ پہلا یہ کہ سب سے زیادہ مستند تاریخ حدیث کی کتابوں سے ہی دستیاب ہو سکتی ہے اور ان میں یہ واقعہ موجود ہے۔ دوسرا یہ کہ اس دور میں جیسی اور جتنی توجہ تاریخ نویسی پر دی جاتی تھی وہ سب کو معلوم ہے۔ تیسرا یہ کہ جب دنیا کے لوگوں کی اکثریت اور ایسے ہی تاریخ نویسوں نے اسے دیکھا ہی نہ تو ہو لکھیں کیا ؟ اور چوتھا یہ کہ تاریخ بھی اس واقعہ کے اندراج سے یکسر خالی نہیں۔ تاریخ فرشتہ میں مذکور ہے کہ مالی بار کے مہاراجہ نے یہ واقعہ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا اور بالآخر یہ واقعہ اس کے اسلام لانے کا سبب بنا تھا۔ چاند کے پھٹنے پر اعتراضات اور ان کے جواب :۔ چوتھا اعتراض یہ ہے کہ ہیئت دانوں اور منجمین نے بھی اس واقعہ کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر چاند پھٹنے سے اس کی رفتار میں فرق آتا، یا وہ اپنا مدار بدل لیتا یا مدار سے ہٹ کر چلنے لگتا تو یہ باتیں اس قابل تھیں کہ ہیئت دان ان کا ذکر کرتے۔ لیکن جب ان میں سے کوئی چیز بھی واقع نہ ہوئی تو وہ کیا ذکر کریں؟ اور پانچواں اعتراض یہ ہے کہ یہ واقعہ خرق عادت ہے اور ان کا دراصل سب سے اہم یہی اعتراض ہے جو انہیں تسلیم کرنے سے روکتا ہے اور وہ ادھر ادھر ہاتھ مارتے اور مختلف قسم کے اعتراض اور شکوک پیدا کرتے ہیں اور حقیقتاً ان کا یہ انکار اللہ کی قدرت کاملہ کا انکار ہے۔ بہرحال یہ بات بھی آج بعید از عقل نہیں رہی۔ ہر سیارے کے پیٹ میں آتشیں مادے یا پگھلتی اور کھولتی ہوئی دھاتیں موجود ہیں جن کا درجہ حرارت ہزارہا درجہ سنٹی گریڈ ہوتا ہے۔ یہ مہیب لاوے ان عظیم الجثہ کروں کو کسی وقت بھی دو لخت کرسکتے ہیں۔ پھر ان کے مرکز کی مقناطیسی قوت جسے آج کی زبان میں قوت ثقل کہتے ہیں اور ان جدا شدہ ٹکڑوں کو ملا کر جوڑ بھی دیتی ہے اور ایسا عمل فضائے بسیط میں ہوتا رہتا ہے۔ یہ کہکشائیں اسی طرح وجود میں آئی ہیں اور آج بھی یہ عمل بند نہیں بلکہ بدستور جاری ہے۔ علاوہ ازیں شہاب ثاقب کسی سیارے کے اس طرح سے جدا شدہ ٹکڑے کا نام ہے۔ جو کبھی علیحدہ ہو کر پھر جڑ جاتا ہے۔ کبھی فضا میں ہی گر کر گم ہوجاتا ہے اور کبھی کبھار زمین پر بھی آگرتا ہے۔ فضائے بسیط میں جو کچھ ہو رہا ہے اگر انسان کو اس کا صحیح طور پر علم ہوجائے تو وہ ان انشقاق قمر کے واقعہ پر کبھی تعجب نہ کرے۔ انسان کو کیا معلوم کہ اللہ کی قدرتوں کا دائرہ کتنا وسیع ہے اور وہ کس قدر حکمت بالغہ سے اس نظام کائنات کو چلا رہا ہے۔