أَعِندَهُ عِلْمُ الْغَيْبِ فَهُوَ يَرَىٰ
کیا اس کے پاس غیب کا علم ہے پس وہ دیکھ رہا ہے (کہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنے سے مال ختم ہوجاتا ہے)
[٢٦] اس سے مراد ولید بن مغیرہ بھی ہوسکتا ہے اور اس کا مشرک ساتھی بھی۔ آخرت کے متعلق ان دونوں کا علم نہایت ناقص اور ظن و قیاس پر مبنی تھا۔ لیکن دونوں نے معاہدہ اس انداز سے کرلیا جیسا وہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور آخرت کے احوال سے پوری طرح واقف ہوچکے ہیں۔ ولید بن مغیرہ کا علم تو اس لحاظ سے ناقص تھا کہ اس نے یہ سمجھا کہ جیسے دنیا میں مال وغیرہ دے کر کسی مصیبت سے انسان بچ سکتا ہے اور مال لینے والا دینے والے کی مصیبت اپنے سر مول لے لیتا ہے ویسے آخرت کا معاملہ بھی ہوگا اور اس کا مشرک ساتھی اس کی بلا اپنے سر لے لے گا اور مشرک ساتھی نے اس بنا پر وعدہ کیا تھا کہ وہ آخرت کا قطعی طور پر منکر تھا اسے اگر یقین تھا تو صرف اس بات کا تھا کہ ہونا ہوانا تو کچھ ہے نہیں جو مال ملتا ہے اسے کیوں چھوڑیں۔ یا ممکن ہے وہ بھی آخرت کے بارے میں مشکوک ہو اور جزا و سزا کے معاملہ میں ایسا ہی گمان رکھتا ہو جیسے ولید بن مغیرہ کا تھا۔