سورة النجم - آیت 27

إِنَّ الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِالْآخِرَةِ لَيُسَمُّونَ الْمَلَائِكَةَ تَسْمِيَةَ الْأُنثَىٰ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

بے شک جو لوگ آخرت پر ایمان (١٧) نہیں رکھتے ہیں، وہ فرشتوں کو عورتوں کا نام دیتے ہیں

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[١٨] اپنی دیویوں سے متعلق مشرکین مکہ کے عقائد :۔ فرشتے اللہ کی ایسی مخلوق ہے جو اللہ کے حکم سے سرتابی کرنے کا اختیار ہی نہیں رکھتے۔ ان کی اطاعت اضطراری اور اجباری ہے اختیاری نہیں۔ پھر وہ اللہ کی اجازت کے بغیر کسی کی سفارش بھی نہیں کرسکتے۔ لیکن ان مشرکوں نے ان فرشتوں کو خدائی اختیارات سونپ کر ان کی پوجا شروع کردی۔ دوسرا ستم یہ ڈھایا کہ انہیں اللہ کی اولاد قرار دے دیا اور تیسرا یہ کہ فرشتوں کو مونث سمجھ لیا اور ان سب باتوں کا نتیجہ یہ نکلا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں جو ہماری حاجت روائی اور مشکل کشائی کرسکتی ہیں اور اگر قیامت فی الواقع ہوئی تھی ہماری سفارش کرکے ہمیں بچا لیں گی۔ پھر انہوں نے ان کے خیالی پتھر کے مجسمے تراش کر انہی کی پوجا شروع کردی۔ اس کی وجہ محض یہ ہے کہ ان کا آخرت پر یقین نہیں۔ اور اس دنیا کی زندگی میں ایک کافر و مشرک اور ایک موحد میں کوئی مابہ الامتیاز فرق نہیں ہوتا۔ بیمار مشرک بھی ہوتے ہیں اور موحد بھی۔ خوشحال مشرک بھی ہوتے ہیں اور موحد بھی۔ مصائب و مشکلات مشرکوں پر بھی پڑتی ہیں اور موحدین پر بھی۔ بلکہ موحدین کی دنیا کی زندگی کافر اور مشرکوں کی زندگی سے زیادہ کٹھن ہوتی ہے کیونکہ انہیں حلال و حرام کی اور اللہ تعالیٰ کے دوسرے احکام کی بھی پابندی کرنی پڑتی ہے۔ اس لیے مشرکوں کے نزدیک یہ کوئی بڑا اہم اور سنجیدہ مسئلہ نہیں کہ آدمی کسی کو معبود مانے یا نہ مانے یا جتنے اور جس قسم کے چاہے معبود بنا لے۔ اس کے نزدیک حق و باطل کا فیصلہ بس اسی دنیا میں ہوتا ہے اور اس دنیا میں ظاہر ہونے والے نتائج قطعاً یہ فیصلہ نہیں دیتے کہ موحد حق پر ہیں اور مشرک باطل پر۔ لہٰذا یہ بات مشرکوں کی خواہش اور مرضی پر ہی منحصر ہوتی ہے کہ جس چیز کو چاہے معبود بنا لیں اور جتنے چاہیں بنا ڈالیں اور جب چاہیں ایک کو چھوڑ کر دوسری چیز کو اپنا معبود بنا ڈالیں۔ اور جو کچھ یہ کرتے ہیں محض اپنے وہم اور قیاس سے کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے شرک و کفر اور توحید کے نتائج کے لیے عالم آخرت بنایا ہے، عالم دنیا نہیں۔ اور یہی عالم آخرت کی اہم ضرورت ہے۔ اگر اللہ اس دنیا میں ہی موحد اور مشرک کے درمیان واضح اور قطعی نتائج دکھا دیتا تو اس طرح دنیا میں کسی کا امتحان ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ البتہ جو لوگ آخرت پر پورا پورا ایمان رکھتے ہیں وہ شرک کر ہی نہیں سکتے۔