إِنْ هِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوهَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّهُ بِهَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَهْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَهُم مِّن رَّبِّهِمُ الْهُدَىٰ
یہ بت تو محض نام (١٤) ہیں جنہیں تم نے اور تمہارے باپ دادوں نے رکھ لئے ہیں، اللہ نے ان کی کوئی دلیل نازل نہیں کی ہے، وہ لوگ محض وہم و گمان کی پیروی کرتے ہیں، اور اپنی خواہش نفس کی، حالانکہ ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے ہدایت آچکی ہے
[١٤] یعنی تمہارے یہ پتھر کے بت بس پتھر ہی ہیں۔ نہ یہ خدا یا دیوتا یا دیویاں ہیں۔ نہ ہی انہیں کچھ تصرف اور اختیار حاصل ہے۔ تم نے اپنے طور پر ایک عقیدہ بنا لیا۔ پھر اس پر جم گئے اور تمہارے وہم و قیاس کے علاوہ ان کی خدائی کی کوئی بنیاد نہیں۔ اللہ نے اپنی کسی کتاب میں ان کو اپنا یا اپنے اختیارات میں شریک قرار نہیں دیا اور تمہارے اس وہم و قیاس کی اصل وجہ ہی یہی کچھ ہے کہ تمہارا دل یہی چاہتا ہے جو پیکر محسوس کی شکل میں تمہارے سامنے ہوں اور تم ان پر نذریں نیازیں چڑھا کر یہ یقین کرلو کہ تمہارے سارے کام انہیں نذروں نیازوں اور انہیں دیوی دیوتاؤں کے طفیل سیدھے ہورہے ہیں۔ علاوہ ازیں اللہ کے ہاں یہ تمہاری سفارش بھی کرنے والی ہیں۔ تمہیں ایسا معبود گوارا نہیں جو تم پر حلال و حرام کی پابندیاں لگائے اور تمہیں اپنے اوامر و نواہی کے شکنجے میں کس کر تمہارا امتحان بھی کرے۔ [١٥] یعنی ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے آکر تمہیں واضح الفاظ میں سیدھا راستہ بتا دیا ہے کہ اس کائنات میں تمہاری عبادت کا اصل حقدار کون ہوسکتا ہے اور اس کے عقلی اور نقلی دلائل کیا ہیں؟۔