إِنْ هُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَىٰ
وہ تو وحی ہوتی ہے جو ان پر اتاری جاتی ہے
[٣] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال کی شرعی حیثیت اور منکرین حدیث :۔ ان آیات کے اولین مخاطب تو کفار مکہ ہیں۔ مگر یہ آیتیں چونکہ آپ کے اقوال کو وحی اور واجب الاتباع قرار دیتی ہیں لہٰذا منکرین حدیث ان کو مقید بھی کرتے ہیں اور ان کا مذاق بھی اڑاتے ہیں۔ مثلاً ایک صاحب نے یوں کہا کہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے گھر جاکر اپنی کسی زوجہ سے یہ کہتے کہ ’’میرا جوتا لاؤ‘‘ تو کیا یہ بھی وحی ہوتی تھی؟ اور اکثر منکرین اس کی یہ تاویل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف جو کچھ وحی کی جاتی رہی وہ سب قرآن میں آگئی ہے۔ اسی پر کفار کو اعتراض اور اسی پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ان کا تکرار اور جھگڑا رہتا تھا۔ اور آپ کی قرآن کے علاوہ دوسری باتیں جو بحیثیت انسان کے ہیں وہ قابل اتباع نہیں ہیں۔ اس طرح یہ حضرات چونکہ تمام ذخیرہ حدیث کو اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کو دین سے خارج اور ناقابل اتباع بلکہ واضح الفاظ میں بے کار ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ لہٰذا ہم اس پر ذرا تفصیل سے بات کریں گے۔ ان لوگوں کی بنیادی غلطی یہ ہے کہ انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے اقوال کو صرف دو حصوں تقسیم میں کردیا۔ حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اللہ کا رسول ہونے کی حیثیت سے کتاب اللہ کے معلم، مفسر اور شارح بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قرآن کی جو تعلیم، تفسیر اور تشریح فرمائی وہ بھی دین ہی سے متعلق تھی۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اقوال دو کے بجائے تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صرف بولتے ہی نہ تھے، کچھ کرتے بھی تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے افعال بھی اسی طرح واجب الاتباع تھے جیسے اقوال۔ اس طرح تین کے بجائے اور بھی زیادہ حصے ہوگئے۔ مختصراً آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی کے درج ذیل پہلو ہمارے سامنے آتے ہیں جن سے معلوم ہوجائے گا کہ دین میں سنت کی کیا ضرورت اور کیا مقام ہے : ١۔ تشریعی امور : قرآن میں نماز کا حکم تو تقریباً سات سو بار آیا ہے مگر اس کی تفصیل کہیں بھی نہیں کہ اسے کیسے ادا کیا جائے۔ کتنی نمازیں ہوں۔ ان کے صحیح اوقات کیا ہیں۔ ہر نماز میں رکعات کی تعداد کتنی ہے اور اس کی ترکیب کیا ہے؟ اسی طرح حج کیسے ادا کیا جائے، زکوٰۃ کتنی وصول کی جائے؟ قضایا کا فیصلہ کیونکر کیا جائے۔ ہر قضیہ کے لیے شہادتوں کا نصاب اور طریق کار کیا ہے۔ یا نکاح میں عورت کی رضامندی کا حق اور اس کی اہمیت، خلع کا حق، صلح و جنگ کے قواعد کی تفصیلات وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام امور ایسے ہیں کہ انسان سنت یا آپ کے اقوال و افعال سے بے نیاز ہو کر انہیں بجا لا ہی نہیں سکتا۔ گویا قرآن کو ماننے اور جاننے کا واحد ذریعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر یہ تمام مندرجہ امور ایسے ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صحابہ سے کبھی مشورہ نہیں کیا حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مشورہ کا تاکیدی حکم تھا کیونکہ یہ امور انسانی بصیرت سے تعلق نہیں رکھتے۔ عام انسان تو کیا ایک نبی بھی ایسے امور کا فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہوتا۔ ایسے تمام امور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو بذریعہ وحی بتائے اور سکھائے جاتے تھے خواہ یہ وحی بذریعہ القاء ہو یا جبرئیل کے بصورت انسان سامنے آکر بتانے کی شکل میں ہو۔ گویا ایسے تمام امور بھی بذریعہ وحی طے پاتے تھے جسے عرف عام میں وحی خفی کہا جاتا ہے اور یہ تو ظاہر ہے کہ ایسی تمام تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں۔ ٢۔ تدبیری امور : ایسے امور میں آپ کو صحابہ سے مشورہ لینے کا حکم دیا گیا تھا۔ مثلاً جنگ کے لیے کون سا مقام مناسب رہے گا، قیدیوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ نظام حکومت کو کیسے چلایا جائے گویا ایسے امور ہیں جن کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی ہے اور تجربہ سے بھی۔ ایسے امور میں وحی کی ضرورت نہیں ہوتی الا یہ کہ مشورہ کے بعد فیصلہ میں کوئی غلطی رہ جائے۔ ایسی صورت میں اس فیصلہ کی اصلاح بذریعہ وحی کردی جاتی تھی۔ جیسے جنگ بدر کے قیدیوں کے متعلق مشورہ کے بعد فیصلہ کے متعلق وحی قرآن میں نازل ہوئی۔ ٣۔ اجتہادی امور : سے مراد ایسے دینی امور ہیں جن میں کسی پیش آمدہ مسئلہ کا حل سابقہ وحی کی روشنی میں تلاش کیا جائے۔ گویہ معاملہ ہر ماہر علوم دین کی ذاتی بصیرت سے یکساں تعلق رکھتا ہے تاہم آپ اس کے سب سے زیادہ حقدار تھے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آکر مسئلہ پوچھا کہ میرے باپ پر حج فرض تھا اور مر گیا ہے۔ کیا میں اب اس کی طرف سے حج کرسکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : ’’بھلا دیکھو! اگر اس کے ذمہ قرض ہوتا تو تم اسے ادا نہ کرتیں؟‘‘ اس عورت نے کہا: ’’ضرور کرتی‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’تو پھر اللہ اس ادائیگی کا زیادہ حق دار ہے‘‘ آپ کے ایسے اجتہادات اور استنباطات کی فہرست بھی طویل ہے تاہم اس سلسلہ میں بھی جب کبھی کوئی لغزش ہوئی تو اس کی بذریعہ وحی جلی یا خفی اصلاح کردی گئی۔ اس کی مثال وہ حدیث ہے جسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کیا کہ ایک آدمی نے پوچھا : یارسول اللہ! بتائیے اگر میں اللہ کی راہ میں مارا جاؤں۔ درآنحالیکہ میں صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا، آگے بڑھنے والا، پیٹھ نہ پھیرنے والا ہوں۔ تو کیا اللہ میرے سب گناہ معاف کردے گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ہاں‘‘ وہ شخص چلا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے پھر آواز دے کر بلایا اور فرمایا ’’مگر قرضہ معاف نہ ہوگا۔ جبریل نے ابھی مجھے اس طرح بتایا ہے۔‘‘ (مسلم، کتاب الامارۃ، باب ماوعدہ اللہ تعالیٰ للمجاہد فی الجنۃ) یعنی سائل کے سوال پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تو جنت کی بشارت دے دی۔ کیونکہ شہادت ایسا افضل عمل ہے کہ خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی شہید جنت کا حقدار بن جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اسی وقت وحی بھیج کر اس میں ترمیم فرما دی۔ ٤۔ طبعی امور : جس میں انسان کی روز مرہ کی بول چال، خوراک، پوشاک اور دوسرے معاملات آجاتے ہیں اور ان امور کا تعلق تمام لوگوں سے یکساں ہے۔ ایسے امور میں انسان اور ایسے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی نسبتاً وحی سے آزاد تھے۔ لیکن وہ کون سا پہلو ہے جس میں وحی نے ایسے معاملات پر پابندی نہ لگائی ہو۔ مثلاً انسان اس بات میں تو آزاد ہے کہ وہ چاہے تو گوشت کھائے چاہے تو سبزی کھائے اور چاہے تو دال کھائے لیکن وہ صرف حلال اور پاکیزہ چیزیں ہی کھا سکتا ہے۔ پھر اسے یہ بھی ہدایت ہے کہ کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھے، اپنے دائیں ہاتھ سے کھائے، اپنے آگے سے کھائے، برتن کو صاف کرے اور بعد میں دعا پڑھے۔ اسی طرح وہ اپنے لباس کے انتخاب کی حد تک تو آزاد ہے لیکن لباس کا ساتر ہونا اور ستر ڈھانکنا ضروری ہے اور عورتوں کے لیے پردہ بھی۔ عورت مردوں جیسا لباس نہ پہنے، نہ مرد عورتوں جیسا لباس پہنیں۔ وہ اپنے اہل خانہ سے گفتگو میں آزاد ہے لیکن اپنی بیوی سے حسن سلوک اور حسن معاشرت کا وہ پابند ہے وہ اپنا کاروبار اختیار کرنے میں آزاد ہے لیکن حرام کاروبار نہیں کرسکتا نہ جائز کاروبار میں ناجائز طریقوں سے مال کما سکتا ہے۔ ناپ تول میں کمی بیشی نہیں کرسکتا۔ کسی دوسرے سے فریب سے مال نہیں بٹور سکتا۔ نہ ہی سود اور اس کے مختلف طریقوں سے مال اکٹھا کرسکتا ہے وغیرہ وغیرہ۔ آخر وہ کون سا پہلو ہے جس میں وہ وحی سے بے نیاز ہے۔ ان تصریحات سے واضح ہوتا ہے کہ تشریعی امور کا انحصار کلیتاً وحی پر ہے اور قرآن میں احکام چونکہ مجملاً مذکور ہوئے ہیں اور ان کا تعلق انسانی بصیرت سے بھی نہیں لہٰذا یہ احکام سنت کے بغیر انجام پا ہی نہیں سکتے۔ باقی تینوں قسم کے امور میں انسان نسبتاً آزاد ہے مگر ان تینوں پہلوؤں پر بھی وحی نے پابندیاں لگائی ہیں اور ہدایات بھی دی ہیں جن میں اکثر کا ذکر قرآن میں نہیں تو پھر آخر سنت نبوی سے انکار کیسے ممکن ہے اور کیسے کہا جاسکتا ہے کہ ﴿وَمَا یَنْطِقُ﴾کا تعلق صرف قرآن ہی سے ہے؟ اور اس نظریہ کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جو شخص سنت کا منکر ہو وہ قرآن کا بھی منکر ہوتا ہے۔