يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُوا نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُوا بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ
اے بنی اسرائیل (٨٨) میر اس نعمت (٨٩) کو یاد کرو جو میں نے تمہیں دیا اور مجھ سے کیے ہوئے عہد (٩٠) کو پورا کرو، میں تم سے کیے ہوئے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھ ہی سے ڈرو
[٥٩] بنی اسرائیل سے خطاب کا آغاز :۔ یہاں سے خطاب کا رخ عوام الناس کے بجائے بنی اسرائیل کی طرف ہوگیا ہے جو چودھویں رکوع تک چلتا ہے۔ یہود مدینہ میں بکثرت آباد تھے۔ چونکہ سیدنا اسحاق علیہ السلام سے لے کر ان میں تقریباً چار ہزار نبی آچکے تھے۔ اس لیے تمام عرب پر ان کے علم و فضل کی دھاک بیٹھی ہوئی تھی۔ ان پر اللہ تعالیٰ نے بے شمار انعامات کئے تھے۔ مگر کچھ مدت گزرنے پر ان میں بہت سے عیوب پیدا ہوگئے تھے اپنے اس علمی تفوق کی بنا پر اور اس حسد کی بنا پر کہ آنے والا نبی اسحاق علیہ السلام کی اولاد سے نہیں، انہوں نے دعوت اسلام قبول کرنے سے انکار کردیا۔ چنانچہ اگلی آیات میں ان کا مفصل ذکر آ رہا ہے۔ اسرائیل کا معنی عبداللہ ہے اور یہ یعقوب علیہ السلام کا لقب تھا اور بنو اسرائیل سے مراد ان کی اولاد یا یہودی قوم ہے۔ جن کے لیے تورات نازل ہوئی۔ [٦٠] بنی اسرائیل کا کتاب اللہ سے سلوک :۔ وہ عہد یہ تھا کہ تم تورات کے احکام کے پابند رہو گے اور میں جو پیغمبر بھیجوں اس پر ایمان لا کر اس کا ساتھ دو گے اور اللہ کا عہد یہ تھا کہ ملک شام تمہارے قبضہ میں رہے گا۔ بنی اسرائیل نے اس اقرار کو قبول تو کرلیا مگر بعد میں اس پر قائم نہ رہے، بدنیتی کی، رشوت لے کر غلط مسئلے بتائے، حق کو چھپایا۔ آنے والے نبیوں کی اطاعت کے بجائے ان میں سے بعض کو قتل ہی کر ڈالا اور اپنی ریاست جمائی اور تورات میں جہاں کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توصیف تھی اسے بھی بدل ڈالا۔