وَمِنَ اللَّيْلِ فَسَبِّحْهُ وَأَدْبَارَ السُّجُودِ
پس وہ لوگ جو کچھ کہتے ہیں، اس پر آپ صبر (٣٠) کیجیے، اور طلوع آفتاب سے پہلے، اور غروب کے پہلے اپنے رب کی حمد و ثنا کے لئے تسبیح پڑھئے
[٤٦] پانچ نمازوں کے اوقات :۔ طلوع آفتاب اور غروب آفتاب سے پہلے پروردگار کی حمد سے مراد فرض نمازیں ہیں۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے واضح ہے : جنت میں دیدار الہٰی :۔ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بجلی کہتے ہیں کہ ایک رات ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاند کو دیکھا جو چودھویں رات کا تھا۔ عنقریب تم (جنت میں) اپنے پروردگار کو یوں بے تکلف دیکھو گے جیسے اس چاند کو دیکھ رہے ہو اور تمہیں کوئی تکلیف محسوس نہ ہوگی۔ پھر اگر تم ایسا کرسکو کہ تم سے طلوع آفتاب سے پہلے کی نماز (فجر) اور غروب آفتاب سے پہلے کی نماز (عصر) قضانہ ہونے پائے تو ایسا ضرور کرو۔ اس کے بعد آپ نے یہی آیت پڑھی۔ ﴿فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ ﴾(بخاری۔ کتاب التفسیر) اور بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ پانچ نمازوں کی فرضیت سے پہلے تین ہی نمازیں تھیں۔ فجر کی نماز، عصر کی نماز اور تہجد کی نماز اور بعض علماء اس آیت سے پانچوں نمازیں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک طلوع آفتاب سے پہلے سے مراد فجر کی نماز ہے اور غروب آفتاب سے پہلے سے مراد ظہر اور عصر کی نمازیں اور رات کی نمازوں سے مراد مغرب اور عشا کی نمازیں ہیں۔ [٤٧] نمازوں کے بعد نوافل اور ذکر واذکار :۔ اس کے بھی دو مطلب ہیں ایک یہ کہ ہر نماز کے بعد کچھ سنت اور نوافل ادا کئے جائیں۔ واضح رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو نماز بطور نفل ادا کی وہی ہمارے لئے سنت ہے اور ہمارے ہاں جو رکعات بطور نوافل ادا کی جاتی ہیں وہ ان نوافل سے زائد ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ادا کئے اور جسے ہم سنت نماز کہتے ہیں۔ اور اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر نماز کے بعد کچھ ذکر اذکار اور تسبیح و تہلیل بھی کیا کیجئے۔ جیسا کہ مجاہد کہتے ہیں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے مجھے حکم دیا کہ ہر (فرض) نماز کے بعد تسبیح پڑھا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا ﴿ وَاَدْبَار السُّجُوْدِ ﴾کا یہی مطلب ہے۔ (بخاری۔ کتاب التفسیر) ایسے بہت سے اذکار صحیح احادیث سے ثابت ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہاں صرف ایک اہم ذکر درج کیا جاتا ہے جس کی بہت فضیلت آئی ہے : سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کچھ محتاج لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے : ’’مالدار لوگ بلند درجات لے گئے اور ہمارا چین لوٹ لیا۔ ہماری طرح وہ بھی نمازیں ادا کرتے اور روزے رکھ لیتے ہیں۔ پھر ان کے پاس پیسہ ہم سے زائد چیز ہے جس سے وہ حج، عمرہ، جہاد اور صدقہ و خیرات بھی کرلیتے ہیں جو ہم محتاج ہونے کی وجہ سے نہیں کرسکتے‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’میں تمہیں ایسی بات نہ بتاؤں جو تم کرو تو آگے بڑھنے والوں کو پکڑ لو اور تم کو کوئی نہ پاسکے جو تمہارے پیچھے ہے اور تم اپنے زمانہ والوں میں سے سب اچھے بن جاؤ الا یہ کہ وہ بھی یہ کام کرنے لگیں۔ تم ہر نماز کے بعد تینتیس تینتیس بار سبحان اللہ، الحمدللہ اور اللہ اکبر کہہ لیا کرو‘‘ اور بعض روایات کے مطابق سبحان اللہ ٣٣ بار، الحمدللہ ٣٣ بار اور اللہ اکبر ٣٤ بار کہنا چاہئے (تاکہ سو (١٠٠) پورا ہوجائے)‘‘ (بخاری۔ کتاب الصلوٰۃ۔ باب الذکر بعد الصلٰوۃ) اور بعض روایات میں ہے کہ جب مالدار لوگ بھی یہ ذکر پڑھنے لگے تو محتاج لوگ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگے کہ یہ ذکر تو مالدار لوگ بھی کرنے لگے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ اللہ کا فضل ہے، جتنا جسے چاہے دے دے۔ اس سلسلہ میں یہ بات بھی ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ایسے ذکر کا کچھ فائدہ نہ ہوگا کہ زبان تو چل رہی ہو اور دل اور باتوں میں مشغول ہو۔