سورة ق - آیت 25

مَّنَّاعٍ لِّلْخَيْرِ مُعْتَدٍ مُّرِيبٍ

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

جو بھلائی سے روکنے والا (١٧) حد سے تجاوز کرنے والا، شک کرنے والا تھا

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٢٩] خیر کے معنی مال و دولت بھی ہے اور بھلائی بھی۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنے میں بخل سے کام لیتا تھا نہ اللہ کے حقوق ادا کرتا تھا اور نہ اس کے بندوں کے۔ بس ہر جائز و ناجائز طریقے سے مال جمع کرنے میں ہی مصروف رہتا تھا۔ اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ نہ صرف خود ہی بھلائی کے کاموں سے رکا رہتا تھا بلکہ دوسروں کو بھی روکتا رہتا تھا۔ اس کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ دنیا میں بھلائی کہیں پھیلنے نہ پائے۔ [٣٠] یعنی اپنی ذاتی اغراض اور خواہشات کی خاطر تمام اخلاقی اور قانونی حدود کو توڑنے والا تھا۔ لوگوں کے حقوق پر دست درازیاں کرتا، جائز و ناجائز طریقوں سے مال سمیٹتا اور اچھے کام کرنے والوں کو ستاتا تھا۔ [٣١] شک کا لفظ یقین اور ایمان کے مقابلہ میں آیا ہے۔ یعنی جن باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان سب باتوں میں شک میں پڑا ہوا تھا۔ پھر اس شک کے جراثیم دوسروں میں بھی پھیلا رہا تھا۔ جس شخص سے اسے سابقہ پڑتا اس کے دل میں کوئی نہ کوئی شک اور وسوسہ ڈال دیتا تھا۔