أَفَلَمْ يَنظُرُوا إِلَى السَّمَاءِ فَوْقَهُمْ كَيْفَ بَنَيْنَاهَا وَزَيَّنَّاهَا وَمَا لَهَا مِن فُرُوجٍ
کیا انہوں نے اپنے اوپر آسمان (٥) کو نہیں دیکھا ہے، ہم نے اسے کس طرح بنایا ہے، اسے ستاروں سے مزین کیا ہے، اور اس میں کوئی شگاف نہیں ہے
[٧] اثبات توحید اور بعث بعد الموت کے دلائل :۔ اس آیت سے توحید کے دلائل اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کے بیان کا آغاز ہوتا ہے۔ آسمان سے مراد وہ نیلگوں چھت ہے جوہر انسان کو برہنہ آنکھ سے دیکھنے پر کروی شکل میں اپنے سر پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے اور سورج، چاند اور خوبصورت اور ننھے منے تارے اسی میں چمکتے دمکتے اور نگینوں کی طرح سجائے ہوئے نظر آتے ہیں اور کسی طاقتور دوربین کی مدد سے اوپر آسمان کی طرف نظر ڈالی جائے تو انسان حیرت کی اتھاہ گہرائیوں میں جا پڑتا ہے۔ اسے یہ سمجھ نہیں آسکتی کہ اس کائنات کا آغاز کہاں سے ہو رہا ہے اور اس کی انتہا کہاں تک ہے اور جو کچھ معلوم ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ کائنات کی ہر چیز پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنی مقررہ منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ جس میں کہیں کوئی وقفہ، کوئی خلا، کوئی شگاف وغیرہ نظر نہیں آتا اور اس سے دلیل اس بات پر لائی گئی ہے کہ جو ذات اتنے بڑے عظیم الجثہ کروں کو اور اس پوری کائنات کو اتنے نظم و ضبط کے ساتھ چلا رہی ہے وہ بھلا اس بات پر بھی قادر نہیں کہ وہ تمہارے زمین میں ملے ہوئے جسم کے ذرات کو اکٹھا کرکے تمہارا جسم بنا دے۔ پھر اس میں تمہاری روح ڈال کر تمہیں دوبارہ زندہ کھڑا کر دے؟