يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِّنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ ۖ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۚ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَّحِيمٌ
اے ایمان والو ! تم لوگ بہت ساری بدگمانی کی باتوں سے پرہیز (١٠) کرو، بے شک بعض بد گمانی گناہ ہے، اور دوسروں کی ٹوہ میں نہ لگے رہو، اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا گوارہ کرے گا، تم اسے بالکل گوارہ نہیں کروگے، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا، بے حد رحم کرنے والا ہے
[١٩] سوئے ظن سے پرہیز :۔ اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں فرمایا کہ گمان کرنے سے بچو بلکہ یوں فرمایا کہ زیادہ گمان کرنے سے بچو۔ کیونکہ گمان تو ہر انسان کو کسی نہ کسی وقت کرنا ہی پڑتا ہے۔ اور اگر ظن و گمان کو عادت بنا لیا جائے تو یہ بہت بری بات ہے کیونکہ اکثر ظن بدظنی پر مشتمل ہوتے ہیں اور کسی سے سوئے ظن رکھنا بذات خود گناہ کبیرہ ہے۔ اس کے برعکس اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہر شخص سے حسن ظنی رکھی جائے تاآنکہ اس سے کوئی ایسا فعل سرزد نہ ہوجائے جو حسن ظن کو بدظنی میں تبدیل کر دے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے متعلق کوئی برا خیال پیدا ہوجائے تو جب تک زبان سے اس کا اظہار نہ کرے وہ قابل مواخذہ نہیں ہے۔ اس آیت میں دراصل اس بات سے منع کیا گیا ہے کہ بعض لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ جس شخص سے ان کا کوئی اختلاف یا جھگڑا ہو اس کی اچھی باتوں میں سے بھی کوئی برا پہلو نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً اگر کسی معاملہ میں چار پہلو حسن ظنی کے ہوں اور ایک پہلو بدظنی پر محمول کیا جاسکتا ہو تو ان کی نظر ہمیشہ بدظنی کے پہلو کی طرف اٹھے گی۔ ایسے لوگ عموماً عام لوگوں کے متعلق حسن ظن کے بجائے کوئی بری بات ہی سوچنے کے عادی ہوتے ہیں۔ [٢٠] کسی کی ٹوہ لگانے سے پرہیز :۔ تجسس کا تعلق عموماً ایسے افعال سے ہوتا ہے جو یا تو کبھی سرزد ہی نہ ہوئے ہوں اور یا ظاہر نہ ہوئے ہوں۔ مثلاً کسی کی ٹوہ لگائے رکھنا یا کسی کے گھر میں جھانکنا، چوری چھپے کسی کی باتیں سننا، کسی کے خطوط دیکھنا یا درمیان میں ٹیلی فون کی گفتگو سننا وغیرہ۔ سب اسی ذیل میں آتے ہیں۔ جبکہ ایسے کاموں کا مقصد کوئی ایسی بات معلوم کرنا ہو جس سے اسے بدنام اور بے عزت کیا جاسکے۔ ایسی جاسوسی سے ممانعت کا حکم صرف اشخاص کے لئے ہی نہیں اسلامی حکومت کے لئے بھی ہے۔ اسلامی حکومت کا یہ کام نہیں کہ وہ لوگوں کی برائیاں ڈھونڈ ڈھونڈ کر منظر عام پر لائے اور پھر انہیں سزا دے۔ بلکہ اس کا کام صرف یہ ہے کہ جو برائیاں ظاہر ہوجائیں، طاقت کے ذریعہ ان کا استیصال کرے۔ البتہ وہ کسی مجرم کی تحقیق کے سلسلہ میں ایسے کام کرسکتی ہے۔ اور جو برائیاں ظاہر نہ ہوں بلکہ مخفی یا گھروں کے اندر ہوں تو ان کا علاج جاسوسی نہیں بلکہ ان کی اصلاح تعلیم، وعظ و تلقین، عوام کی اجتماعی تربیت اور ایک پاکیزہ معاشرتی ماحول پیدا کرنے سے کی جائے گی۔ [٢١] غیبت سے اجتناب :۔ غیبت کی تعریف جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی وہ یہ ہے کہ تو اپنے بھائی کا ذکر اس طرح کرے جو اسے ناگوار ہو۔ صحابہ نے عرض کیا کہ اگر میرے بھائی میں وہ بات پائی جاتی ہو جو میں کہہ رہا ہوں تو پھر؟ آپ نے فرمایا : ’’اگر اس میں وہ بات پائی جائے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر اس میں وہ بات موجود نہ ہو تو تو نے اس پر بہتان لگایا‘‘ (مسلم۔ کتاب البر والصلۃ والادب۔ باب تحریم الغیبۃ) اور یہ تو واضح بات ہے کہ بہتان غیبت سے بھی بڑا جرم ہے اور غیبت خواہ کسی زندہ انسان کی، اس کی پیٹھ پیچھے کی جائے یا کسی فوت شدہ انسان کی، جرم کی نوعیت کے لحاظ سے اس میں کوئی فرق نہیں۔ غیبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانے کے مترادف قرار دیا۔ کیونکہ غیبت کرنے والا اس کی عزت پر حملہ آور ہوتا ہے۔ جیسے اسے کاٹ کاٹ کر کھا رہا ہو اور مردہ اس لئے فرمایا کہ جس کی غیبت کی جا رہی ہے وہ پاس موجود نہیں ہوتا۔ غیبت کی حرمت سے استثناء کی صورتیں :۔ البتہ بعض اہم ضرورتوں کے پیش نظر شریعت نے چند صورتوں کو اس حرمت سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ مثلاً:۔ ١۔ مظلوم حاکم کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرکے ظلم کی فریاد کرسکتا ہے۔ اور اس کی بنیاد سورۃ النساء کی آیت نمبر ١٤٨ ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر عدالت کا نظام چل ہی نہیں سکتا۔ مظلوم کو عام لوگوں کے سامنے بلاضرورت اور تحقیر کی خاطر بھی ظالم کی غیبت کرنا یا اپنے ظلم کی داستان بیان کرنا جائز نہیں۔ پھر جس طرح ایک مظلوم عدالت کے سامنے ظالم کی غیبت بیان کرسکتا ہے۔ اسی طرح استفتاء کی صورت میں مفتی کے سامنے بھی بیان کرسکتا ہے۔ ٢۔ کسی شخص کے شر سے بچنے کے لئے اپنے مومن بھائی کو اس کے عیب و ثواب سے مطلع کردینا تاکہ وہ اس کے شر یا اپنے نقصان سے بچ سکے۔ مثلاً کوئی شخص رشتہ کرنا چاہتا ہو، یا کسی سے کاروباری اشتراک کرنا چاہتا ہو یا کسی کے ہمسایہ میں مکان خریدنا چاہتا ہو یا اسے قرضہ دینا یا امانت سونپنا چاہتا ہو اور وہ اپنے کسی دوسرے بھائی سے مشورہ لے۔ تو مشورہ دینے والے کو نہایت دیانتداری سے متعلقہ شخص کے عیب و ثواب بیان کردینے چاہئیں تاکہ وہ کسی دھوکہ میں نہ رہے اور اس کی بنیاد یہ حدیث ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر کہنے لگا کہ میں نے انصار کی ایک عورت سے عقد کیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا : ’’تم نے اس کو دیکھا بھی ہے؟‘‘ اس نے کہا، نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’جا اور اسے دیکھ لے اس لئے کہ انصار کی عورتوں کی آنکھوں میں کچھ (عیب) ہوتا ہے‘‘ (مسلم۔ کتاب النکاح۔ باب ندب من اراد نکاح امراۃً) ٣۔ محدثین کا قانون جرح و تعدیل۔ جس پر تمام ذخیرہ حدیث کی جانچ پرکھ کا انحصار ہے اور جس کے ذریعہ عامۃ المسلمین کو عام گمراہی سے بچانا مقصود ہے۔ اس صورت میں راویوں کے عیب و ثواب بیان کرنا جائز ہی نہیں بلکہ بالاتفاق واجب ہے۔ اور اس کی بنیاد بھی وہی حدیث ہے جو اوپر بیان ہوئی نیز اس سورۃ کی آیت نمبر ٦ بھی۔ یعنی فاسق کی خبر کی تحقیق ضروری ہے۔ ٤۔ ایسے لوگوں کے خلاف علی الاعلان آواز بلند کرنا اور ان کی برائیوں پر تنقید کرنا جو فسق و فجور پھیلا رہے ہیں یا بدعات اور گمراہیوں کی اشاعت کر رہے ہوں۔ یا خلق خدا کو بےدینی اور ظلم و جور کے فتنوں میں مبتلا کر رہے ہوں۔