يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ
اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق (٥) تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے، تو اس کی تحقیق کرلو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی قوم کو نادانی میں نقصان پہنچادو، پھر اپنے کئے پر تمہیں ندامت اٹھانی پڑے
[٧] خبرکی تحقیق کی ضرورت اس صورت میں ہے جب خبردینے والے کا کردار پوری طرح معلوم نہ ہو :۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قبیلہ بنی مصطلق جب مسلمان ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ کو ان سے زکوٰۃ لینے کے لئے بھیجا۔ ولید بن عقبہ کے قبیلہ اور بنی مصطلق میں پہلے سے دشمنی چلی آرہی تھی۔ جب ولید بن عقبہ ان کے ہاں گئے تو کسی وجہ سے ڈر گئے اور واپس آکر آپ سے کہہ دیا کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکاری ہیں۔ بلکہ وہ تو مجھے بھی قتل کردینا چاہتے تھے۔ بعض لوگوں نے یہ رائے دی کہ ان لوگوں کی سرکوبی کے لئے ان پر چڑھائی کرنا چاہئے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس معاملہ میں متأمل تھے۔ اسی دوران بنی مصطلق کا سردار حارث بن ضرار (ام المومنین سیدنا جویریہ کا والد) اتفاق سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں آئے۔ تو انہوں نے بتایا کہ ولید بن عقبہ رضی اللہ عنہ تو ہمارے ہاں گئے ہی نہیں تو ان کے قتل کا سوال کیسے پیدا ہوسکتا ہے؟ ہم مسلمان ہیں اور زکوٰۃ دینے کو تیار ہیں۔ اسی سلسلہ میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ہمیں یہ روایت درست تسلیم کرنے میں تأمل ہے۔ کیونکہ آیت میں فاسق کا لفظ آیا ہے تو کیا ولید بن عقبہ فاسق (جس کا اگر نرم سے نرم زبان میں بھی ترجمہ کیا جائے تو ناقابل اعتماد آدمی ہی ہوسکتا ہے) تھے؟ اور اگر ایسی ہی بات تھی تو آپ انہیں زکوٰۃ کا محصل بنا کر کیسے بھیج سکتے تھے؟ لہٰذا اگر اس آیت اور اس واقعہ میں نسبت قائم نہ کی جائے تو بہتر ہے۔ نیز اس واقعہ کے بغیر بھی اس آیت کا مفہوم صاف سمجھ میں آرہا ہے۔ کیونکہ اکثر تنازعات اور لڑائی جھگڑوں کی ابتدا جھوٹی خبروں اور بے بنیاد افواہوں سے ہوتی ہے۔ اور جو لوگ جھوٹی خبر دیں، یا ان کی بلا تحقیق تشہیر کریں وہ فاسق ہیں۔ سچے مومن ایسے کام نہیں کرسکتے۔ لہٰذا جس شخص کی ذات پر اس کے سچا اور راست باز ہونے کا پورا اعتماد ہو اس کی خبر کو قبول کیا جاسکتا ہے۔ لیکن جو لوگ ناواقف ہوں اور ان پر اعتماد کرنے کے ذرائع موجود نہ ہوں۔ ان کی خبر کو تحقیق کے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہئے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو بعض دفعہ انسان ایسے فتنوں میں پڑجاتا ہے۔ جن پر بعد میں پچھتانا بھی پڑتا ہے۔ اور نقصان بھی بہت ہوجاتا ہے اپنا بھی اور دوسروں کا بھی۔