سورة الفتح - آیت 27

لَّقَدْ صَدَقَ اللَّهُ رَسُولَهُ الرُّؤْيَا بِالْحَقِّ ۖ لَتَدْخُلُنَّ الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ إِن شَاءَ اللَّهُ آمِنِينَ مُحَلِّقِينَ رُءُوسَكُمْ وَمُقَصِّرِينَ لَا تَخَافُونَ ۖ فَعَلِمَ مَا لَمْ تَعْلَمُوا فَجَعَلَ مِن دُونِ ذَٰلِكَ فَتْحًا قَرِيبًا

ترجمہ تیسیر الرحمن لبیان القرآن - محمد لقمان سلفی صاحب

اللہ نے اپنے رسول کا برحق خواب (١٨) سچ کردکھایا، اگر اللہ نے چاہا تو تم یقیناً مسجد حرام میں داخل ہوگے، درانحالیکہ تم امن میں ہوگے، اپنے سروں کے بال منڈائے یا کٹائے ہوگے، تم خوف زدہ نہیں ہوگے، پس اسے وہ معلوم تھا جو تم نہیں جانتے تھے، چنانچہ اس نے اس سے پہلے تمہیں ایک قریب کی فتح عطا کی

تفسیر تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمٰن کیلانی

[٤١] عمرہ کے خواب کی حقیقت :۔ کافر یا منافقین تو درکنار خود بعض مسلمانوں کو بھی اس بات میں تردد تھا کہ نبی کا خواب تو وحی ہوتا ہے۔ پھر یہ کیا معاملہ ہے کہ ہمیں عمرہ سے روک دیا گیا ہے۔ اور خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو منظور فرما رہے ہیں۔ اس کا ایک جواب تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمررضی اللہ عنہ کو دے دیا تھا کہ : ’’میں نے یہ کب کہا تھا کہ یہ عمرہ اسی سال ہوگا‘‘ (یعنی خواب میں وقت کی تعیین نہیں کی گئی تھی) اور دوسرا جواب خود اللہ تعالیٰ نے دے دیا کہ پیغمبر کا خواب فی الواقع سچا تھا اور ہم نے ہی دکھایا تھا وہ ضرور پورا ہوگا۔ تم یقیناً امن و امان کے ساتھ حرم میں داخل ہو کر عمرہ ادا کرو گے۔ تم سر منڈاؤ گے اور بال کتراؤ گے۔ یہاں پہلے سر منڈانے کا ذکر فرمایا جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سر منڈانا، بال کتروانے سے افضل ہے۔ چنانچہ صلح حدیبیہ سے اگلے سال مسلمانوں نے عمرہ قضا ادا کیا اور یہ سب باتیں پوری ہوئیں۔ ایفائے عہد کی مثال :۔ از روئے معاہدہ حدیبیہ طے یہ ہوا تھا کہ مسلمان اگلے سال عمرہ کے لئے آئیں اور تین دن کے اندر اندر عمرہ کرکے واپس اپنے وطن چلے جائیں۔ اور جب مسلمان آگئے تو قریش مکہ یہ برداشت نہ کرسکے کہ مسلمان ان کی نظروں کے سامنے بلاتکلف کعبہ میں داخل ہو کر عمرہ کے ارکان آزادی سے بجا لاسکیں۔ لہٰذا انہوں نے صرف حرم کعبہ کو خالی کرنے کے بجائے اس شہر کو ہی خالی کردیا اور خود آس پاس پہاڑیوں پر تین دن کے لئے جامقیم ہوئے۔ اس دوران اگر مسلمان چاہتے تو بڑی آسانی سے مکہ پر قبضہ کرسکتے تھے۔ مگر مسلمان ایفائے عہد میں اس قسم کی موقع شناسی کو بدترین جرم تصور کرتے تھے۔ لہٰذا کسی کو بھی ایسا خیال تک نہ آیا اور تین دن کی طے شدہ مدت کے بعد مسلمان عمرہ کرکے واپس چلے گئے۔ عمرہ قضا کو کس لحاظ سے عمرہ قضا کہا جاتا ہے؟ :۔ بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ حدیبیہ میں چونکہ مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے روک دیا گیا تھا۔ لہٰذا اس عمرہ کی قضا لازم تھی۔ جو انہوں نے اگلے سال ادا کی۔ اور مغالطہ غالباً لفظ قضا سے ہوا۔ حالانکہ یہاں قضا اپنے لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ یعنی وہ عمرہ جس کے متعلق معاہدہ حدیبیہ میں یہ فیصلہ ہوا تھا کہ مسلمان اس سال نہیں بلکہ اگلے سال آکر کریں گے جس کی دلیل یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے سال کوئی ایسا اعلان نہیں فرمایا کہ جو لوگ پچھلے سال عمرہ سے روک دیئے گئے تھے وہ عمرہ کے لئے تیار ہوجائیں اور مسلمان بھی جو حدیبیہ میں حاضر ہوئے تھے اس معاملہ میں آزاد تھے۔ جو آسکتے تھے وہ آگئے اور جو نہ آسکے وہ نہیں آئے۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث میں بھی اس کی وضاحت موجود ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ قضا اس پر لازم ہے جو عورت سے صحبت کرکے حج توڑے، اور جسے کوئی عذر لاحق ہوجائے، دشمن روک دے یا اور کچھ بیماری وغیرہ کا عذر ہو تو وہ اپنا احرام کھول دے اور قضا نہ دے۔ اور اگر اس کے ساتھ قربانی ہو اور اسے حرم میں نہ بھیج سکے تو وہیں ذبح کردے اور اگر حرم تک بھیج سکتا ہے تو جب تک قربانی وہاں نہ پہنچ جائے، وہ احرام نہیں کھول سکتا اور امام مالک وغیرہ نے کہا کہ جب وہ رک جائے تو جہاں کہیں چاہے وہیں قربانی ذبح کر دے اور سر منڈا لے اور اس پر قضا لازم نہیں۔ کیونکہ رسول اللہ اور آپ کے اصحاب نے حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کیں اور سر منڈائے اس سے پہلے کہ وہ طواف کریں اور قربانی بیت اللہ کو پہنچے۔ پھر کسی روایت میں اس کا ذکر نہیں کہ آپ نے ان میں سے کسی کو قضا کا حکم دیا ہو یا دہرانے کو کہا ہو۔ اور حدیبیہ حرم کی حد سے باہر ہے۔ (بخاری۔ کتاب المناسک۔ ابو اب المحصر۔ باب من قال لیس علی المحصر بدل۔۔) [٤٢] یعنی یہ کہ یہ عمرہ اگلے سال ہوگا۔ اس سال نہیں ہوگا۔ [٤٣] یعنی یہ فتح خیبر تمہاری حدیبیہ کے مقام پر پیش آنے والی پریشانیوں پر صبر و برداشت اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے صلہ کے طور پر تمہیں دی جارہی ہے۔