إِذْ جَعَلَ الَّذِينَ كَفَرُوا فِي قُلُوبِهِمُ الْحَمِيَّةَ حَمِيَّةَ الْجَاهِلِيَّةِ فَأَنزَلَ اللَّهُ سَكِينَتَهُ عَلَىٰ رَسُولِهِ وَعَلَى الْمُؤْمِنِينَ وَأَلْزَمَهُمْ كَلِمَةَ التَّقْوَىٰ وَكَانُوا أَحَقَّ بِهَا وَأَهْلَهَا ۚ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
جب کافروں نے اپنے دلوں میں جاہلیت کے تعصب (١٧) کو جگایا، تو اللہ نے اپنے رسول اور مومنوں پر اپنا سکون اتار، اور انہیں تقویٰ والی بات پر قائم رکھا، اور یہ لوگ اس کے سب سے زیادہ حقدار اور سزا وار تھے، اور اللہ ہر چیز کی پوری خبر رکھتا ہے
[٣٩] قریش کی جاہلانہ حمیت :۔ قریش کی اس عصبیت کے بھی دو پہلو تھے ایک یہ کہ جن مسلمانوں نے جنگ بدر میں ہمارے عزیز و اقارب کو مار ڈالا ہے، ہم انہیں مکہ میں اپنے ہاں داخل ہونے کی اجازت کیسے دے سکتے ہیں اور دوسرا پہلو یہ تھا کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہوجانے دیا تو عرب بھر میں یہ بات مشہور ہوجائے گی کہ قریش مکہ مسلمانوں سے دب گئے ہیں۔ یہ تھی جاہلی حمیّت جس کی پچ میں انہوں نے ایک ایسے دستور کی خلاف ورزی کر ڈالی جو ان میں معروف تھا اور وہ یہ تھا کہ کسی بھی حج، عمرہ اور طواف کرنے والے کو ان کاموں سے روکا نہیں جاسکتا۔ علاوہ ازیں وہ حرمت والے مہینہ میں بھی لڑائی کرنے پر آمادہ تھے۔ [٤٠] وہ تقویٰ کی بات یہ تھی کہ مسلمان تنگی ترشی، جوش، غضب، غرضیکہ ہر طرح کے حالات میں اپنے آپ کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا پابند بنائے رکھیں گے۔ یہ اللہ کی خاص مہربانی تھی کہ اس نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم کے مشتعل جذبات کو سکون بخش کر انہیں صلح کے سمجھوتہ پر مائل کردیا۔