وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتًا ۚ بَلْ أَحْيَاءٌ عِندَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ
اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل کردئیے گئے (115) آپ انہیں مردہ نہ سمجھیں، بلکہ وہ تو اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، اور انہیں روزی دی جاتی ہے
[١٦٩] روح اور جسم کے اتصال کا نام زندگی اور انفصال کا نام موت ہے۔ قرآن میں دو بار کی زندگی اور دو بار کی موت کا ذکر آیا ہے اور ان کی ترتیب یہ ہے (١) موت یعنی انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت جسے عالم ارواح کہتے ہیں۔ (٢) زندگی یعنی پیدائش سے موت تک کا وقت (٣) موت یعنی موت سے قیامت (حشر) تک کا وقت اور (٤) زندگی یعنی حشر سے لے کرتا ابد لامتناہی مدت کے لیے، (جنت میں یا جہنم میں) دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ موت کے عرصہ میں بھی کلی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ زندگی کے کچھ نہ کچھ اثرات اس میں موجود ہوتے ہیں جیسے عالم ارواح میں تمام پیدا ہونے والے انسانوں سے الست بربکم کا وعدہ لیا گیا تھا اور جیسے عالم برزخ میں بھی مردہ کو عذاب و ثواب ہوتا ہے اور ان ادوار کو موت کا دور اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں زندگی کے اثرات خفیف اور موت کے اثرات نمایاں ہوتے ہیں۔ شہداء کی زندگی اور موت کےمراحل:۔ تیسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں شارٹ کٹ تو ہوسکتا ہے۔ مگر ترتیب میں فرق نہیں آسکتا۔ جیسے ایک بچہ پیدا ہوتے ہی مر جائے تو فوراً زندگی کے دور سے عالم برزخ (موت کے دور) میں داخل ہوجاتا ہے یا جیسے شہید مرتے ہی عالم برزخ کو پھلانگ کر فوراً جنت میں (عالم عقبیٰ) میں داخل ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ مندرجہ بالا تین آیات میں مذکور ہے۔ اور چوتھی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان مراحل میں رجعت ناممکن ہے۔ مثلاً کوئی شخص پیدا ہو کر واپس عالم ارواح میں نہیں جاسکتا۔ اسی طرح عالم برزخ میں پہنچ چکا ہے وہ دنیا میں نہیں آسکتا۔ شہید چونکہ فوراً عالم عقبیٰ (جنت میں) پہنچ جاتا ہے۔ لہٰذا اس کا واپس عالم برزخ یا عالم دنیا میں آنا ناممکن ہے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل دو احادیث سے یہ پورا مضمون واضح ہوجاتا ہے۔ ١۔ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ملے اور پوچھا! کیا بات ہے جابر’’میں تمہیں شکستہ خاطر دیکھ رہا ہوں؟‘‘ میں نے عرض کیا : یارسول اللہ! میرے والد (جنگ احد میں) شہید ہوگئے اور قرض اور چھوٹے چھوٹے بچے چھوڑ گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کیا میں تمہیں یہ بشارت نہ دوں کہ اس کی اللہ سے کیسے ملاقات ہوئی‘‘میں نے عرض کیا، ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ضرور بتلائیے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ کسی سے کلام نہیں کرتا، مگر پردے کے پیچھے سے اللہ نے تمہارے باپ کو زندہ کیا پھر اس سے رو در رو بات کی اور پوچھا : کچھ آرزو کرو جو میں تمہیں عطا کروں‘‘تیرے باپ نے کہا : اے میرے پروردگار! مجھے دوبارہ زندگی دے تاکہ میں دوسری مرتبہ تیری راہ میں شہید ہوجاؤں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :’’ یہ بات پہلے سے طے ہوچکی ہے کہ لوگ دوبارہ دنیا کی طرف نہ لوٹیں گے۔‘‘ راوی کہتا ہے۔ یہ آیت اسی بارے میں نازل ہوئی۔ (ترمذی، ابو اب التفسیر) ٢۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم نے اس آیت کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کی صورت میں ہوں گی۔ ان کے لیے عرش الٰہی میں کچھ قندیلیں لٹکی ہیں۔ یہ روحیں جنت میں جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پھر، ان قندیلیوں میں واپس آجاتی ہیں۔ ان کے پروردگار نے ان کی طرف دیکھا اور پوچھا : کیا تمہیں کسی چیز کی خواہش ہے؟ تو انہوں نے کہا : ہم کس چیز کی خواہش کریں۔ ہم جہاں چاہیں سیر کرتی پھرتی ہیں۔ پروردگار نے ان سے تین بار یہی سوال کیا : جب انہوں نے دیکھا کہ اب جواب دیئے بغیر چارہ نہیں تو کہا : اے ہمارے پروردگار! ہم یہ چاہتے ہیں کہ تو ہماری روحیں واپس (دنیا میں) لوٹا دے تاکہ ہم تیری راہ میں پھر جہاد کریں اور پھر شہید ہوں۔ (مسلم، کتاب الأمارۃ، باب فی بیان ان ارواح الشھداء فی الجنة وانھم احیاء عندربھم یرزقون) سورہ بقرہ کی آیت نمبر ١٥٤ میں فرمایا گیا کہ شہداء کو مردہ نہ سمجھو۔ قرآن کے شہداء کے متعلق یہ ارشادات محض اعزازی نہیں۔ بلکہ شہداء کی فضیلت ہی یہ ہے کہ وہ عالم دنیا سے رخصت ہوتے ہی فوراً جنت میں پہنچ جاتے ہیں۔ عالم برزخ یعنی موت والا تیسرادوران پر نہیں آتا۔