بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
میں شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان، بے حد رحم کرنے والا ہے
[١] سورۃ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )کے نزول کا پس منظر :۔ سورۃ محمد ان ابتدائی سورتوں میں سے ہے جو ہجرت کے بعد مدینہ میں نازل ہوئیں۔ مکہ میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے دشمن صرف قریش تھے۔ لیکن مدینہ جانے کے بعد جب مسلمانوں کی ایک چھوٹی سی ریاست بھی قائم ہوگئی تو مسلمانوں کے دشمنوں میں اضافہ ہوگیا۔ قریش مکہ نے بھی اپنی دشمنی ترک نہیں کی۔ یہود سے اگرچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ جاتے ہی ایک دفاعی سمجھوتہ کرلیا تھا لیکن یہود ایک عہد شکن قوم ہے۔ ان کی ساز باز قریش مکہ کے ساتھ رہتی تھی اور قریش مکہ بھی اس دفاعی سمجھوتہ کے باوجود انہیں اپنا ہی حلیف سمجھتے تھے۔ منافقین بھی مسلمانوں کے لیے مارآستین بنے ہوئے تھے اور درپردہ ان کی سب ہمدردیاں یہود کے ساتھ تھیں اور یہ اس لحاظ سے بھی خطرناک تھے کہ مسلمانوں کے راز اور تدبیروں سے یہود اور دوسرے دشمنوں کو باخبر رکھتے تھے۔ علاوہ ازیں ارد گرد کے مشرک قبائل عرب بھی اس چھوٹی سی نئی مسلم ریاست کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہ تھے۔ مدینہ پہنچنے کے بعد پیدا ہونے والے شدید مسائل اور صرف دو ہی راستے :۔ مدینہ پہنچ کر مسلمانوں کو یہ فائدہ تو ہوگیا کہ اب وہ آزادی کے ساتھ قرآن پڑھ سکتے، ارکان اسلام بجا لاتے اور علی الاعلان تبلیغ کرسکتے تھے۔ مگر یہاں آکر وہ اندر اور باہر کے چاروں طرف کے دشمنوں کے نرغہ میں گھرے ہوئے تھے۔ مہاجرین کی آباد کاری اور معاشی پریشانیوں کا مسئلہ الگ تھا۔ ان حالات میں مسلمانوں کے لیے بس دو ہی راستے تھے ایک یہ کہ ان مشکلات سے گھبرا کر کفر کے آگے گھٹنے ٹیک دیں اور دوسرا یہ کہ سر دھڑ کی بازی لگا کر کفر کے مقابلہ میں ڈٹ جائیں اور اللہ پر توکل کریں۔ اسی پس منظر میں یہ سورۃ نازل ہوئی، مسلمانوں کو تسلی بھی دی گئی۔ اور اللہ پر توکل رکھتے ہوئے قتال فی سبیل اللہ کی ترغیب دی گئی ہے۔